Page 1
Standard

کرونا وائرس، توکل کی حقیقت

*بیان جمعة المبارك*
*حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا کرونا وائرس اور احتیاطی تدابیر سے متعلق نہایت ضروری بیان، خود بھی سنیں اور دوسروں کو بھی سنائیں*
موضوع: “کرونا وائرس، توکل کی حقیقت، اور توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر کی ضرورت”
مقرر: شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
تاریخ: 17-رجب المرجب-1441 13-مارچ-2020 قبل نمازِ جمعہ
بمقام جامع مسجد بیت المکرم کراچی
www.nooresunnat.com

Standard

فنائیت کا درس

مکتوب از شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم
حضرت ڈاکٹر عبدالحئ عارفی صاحب قدس اللہ سرہ کی زبان پر اللہ تعالٰی بڑے عجیب وغریب معارف جاری کرتے تھے،
ایک دن فرمانے لگے جب پلاؤ پکایا جاتا ہے، تو شروع شروع میں ان چاولوں کے اندر جوش ہوتا ہے ان میں سے آواز آتی رہتی ہے اور وہ حرکت کرتے رہتے ہیں، اور ان چاولوں کا جوش مارنا، حرکت کرنا اس بات کی علامت ہے کہ چاول ابھی کچے ہیں۔ پکے نہیں۔ وہ ابھی کھانے کے لائق نہیں، اور ان میں ذائقہ ہے نہ خوشبو
لیکن جب چاول پکنے کے بالکل قریب ہوجاتے ہیں، اس وقت اس کا دم نکالا جاتا ہے اور دم نکالتے وقت نہ تو ان چاولوں میں جوش ہوتا ہے نہ حرکت اور آواز ہوتی ہے، اس وقت وہ چاول بالکل خاموش پڑے رہتے ہیں، لیکن جیسے ہی اس کا دم نکالا، ان چاولوں میں سے خوشبو پھوٹ پڑی. اور اب اس میں ذائقہ بھی پیدا ہوگیا اور کھانے کے قابل ہوگئے
اسی طرح جب تک انسان کے اندر یہ دعوے ہوتے ہیں کہ میں ایسا ہوں، میں بڑا علامہ ہوں، میں بڑا متقی ہوں، بڑا نمازی ہوں! چاہے دعوے زبان پر ہوں، چاہے دل میں ہوں اس وقت تک اس انسان میں نہ خوشبو ہے اور نہ اس کے اندر ذائقہ ہے. وہ تو کچا چاول ہے، اور جس دن اس نے اللہ تعالٰی کے آگے اپنے ان دعوؤں کو فنا کرکے یہ کہہ دیا کہ میری تو کوئی حقیقت نہیں، میں کچھ نہیں اس دن اس کی خوشبو پھوٹ پڑتی ہے. اور پھر اللہ تعالٰی اس کا فیض پھیلاتے ہیں. ایسے موقع پر ہمارے ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کیا خوبصورت شعر پڑھتے تھے کہ
میں عارفی، آوارہ صحراء فنا ہوں ایک عالم بے نام ونشاں میرے لیے ہے
یعنی اللہ تعالٰی نے مجھے فنائیت کے صحراء میں آوارگی عطاء فرمائی ہے اور مجھے فنائیت کا درس عطاء فرمایا۔ اللہ تعالٰی اپنی رحمت سے ہمیں بھی عطاء فرما دے۔ آمین
مکتوب از شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم

Standard

ستاروں کا ٹوٹنا

Urdu – Tafsir ibn Kathir
Saba’ 34:22

صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا فیصلہ آسمان میں کرتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر جھکا لیتے ہیں اور رب کا کلام ایسا واقع ہوتا ہے جیسے اس زنجیر کی آواز جو پتھر پر بجائی جاتی ہو جب ہیبت کم ہوجاتی ہے۔ تو پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے اس وقت کیا فرمایا ؟ جواب ملتا ہے کہ جو فرمایا حق ہے اور وہ اعلی و کبیر ہے۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جو جنات فرشتوں کی باتیں سننے کی غرض سے گئے ہوئے ہیں اور جو تہ بہ تہ ایک دوسروں کے اوپر ہیں وہ کوئی کلمہ سن لیتے ہیں اوپر والا نیچے والے کو وہ اپنے سے نیچے والے کو سنا دیتا ہے اور وہ کاہنوں کے کانوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ ان کے پیچھے فوراً ان کے جلانے کو آگ کا شعلہ لپکتا ہے لیکن کبھی کبھی تو وہ اس کے آنے سے پہلے ہی ایک دوسرے کو پہنچا دتا ہے اور کبھی پہنچانے سے پہلے ہی جلا دیا جاتا ہے۔ کاہن اس ایک کلمے کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں پھیلاتا ہے۔ وہ ایک بات سچی نکلتی ہے لوگ اس کے مرید بن جاتے ہیں کہ دیکھو یہ بات اس کے کہنے کے مطابق ہی ہوئی۔

مسند میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ صحابہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ ٹوٹا اور زبردستی روشنی ہوگئی۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ جاہلیت میں تمہارا خیال ان ستاروں کے ٹوٹنے کی نسبت کیا تھا ؟ انہوں نے کہا ہم اس موقعہ پر سمجھتے تھے کہ یا تو کوئی بہت بڑا آدمی پیدا ہوا یا مرا۔ زہری سے سوال ہوا کہ کیا جاہلیت کے زمانے میں بھی ستارے جھڑتے تھے ؟ کہا ہاں لیکن کم۔ آپ کی بعثت کے زمانے سے ان میں بہت زیادتی ہوگئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنو انہیں کسی کی موت وحیات سے کوئی واسطہ نہیں۔ بات یہ ہے کہ جب ہمارا رب تبارک و تعالیٰ کسی امر کا آسمانوں میں فیصلہ کرتا ہے تو حاملان عرش اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں پھر ساتویں آسمان والے پھر چھٹے آسمان والے یہاں تک کہ یہ تسبیح آسمان دنیا تک پہنچتی ہے۔ پھر عرش کے آس پاس کے فرشتے عرش کے اٹھانے والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ؟ وہ انہیں بتاتے ہیں پھر ہر نیچے والا اوپر والے سے دریافت کرتا ہے اور وہ اسے بتاتا ہے یہاں تک کہ آسمان اول والوں کو خبر پہنچتی ہے۔ کبھی اچک لے جانے والے جنات اسے سن لیتے ہیں تو ان پر یہ ستارے جھڑتے ہیں تاہم جو بات اللہ کو پہچانی منظور ہوتی ہے اسے وہ لے اڑتے ہیں اور اس کے ساتھ بہت کچھ باطل اور جھوٹ ملا کر لوگوں میں شہرت دیتے ہیں۔

ابن ابی حاتم میں ہے اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی امر کی وحی کرتا ہے تو آسمان مارے خوف کے کپکپا اٹھتے ہیں اور فرشتے ہیبت زدہ ہو کر سجدے میں گرپڑتے ہیں۔ سب سے پہلے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سر اٹھاتے ہیں اور اللہ کا فرمان سنتے ہیں پھر ان کی زبانی اور فرشتے سنتے ہیں اور وہ کہتے جاتے ہیں کہ اللہ نے حق فرمایا وہ بلندی اور بڑائی والا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کا امین فرشتہ جس کی طرف ہو اسے پہنچا دیتا ہے۔