وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ۘاِذْ يَعْدُوْنَ فِي السَّبْتِ اِذْ تَاْتِيْهِمْ حِيْتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّيَوْمَ لَا يَسْبِتُوْنَ ۙ لَا تَاْتِيْهِمْ ڔ كَذٰلِكَ ڔ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ١٦٣
بنی اسرائیل کی حرکتیں بھی بہت بری تھیں ان کا نافرمانی کا مزاج تھا۔ ان پر آزمائش بھی طرح طرح سے آتی رہتی تھی، حکم تھا کہ سنیچر کے دن کی تعظیم کریں ان دنوں سے متعلق جو احکام تھے ان میں یہ بھی تھا کہ اس دن مچھلیاں نہ پکڑیں۔ لیکن یہ لوگ باز نہ آئے سنیچر کے دن ان کی آزمائش اس طرح ہوتی تھی کہ مچھلیاں خوب ابھر ابھر کر سامنے آجاتی تھیں اور دوسرے دنوں میں اس طرح نہیں آتی تھیں۔ ان لوگوں نے مچھلیوں کے پکڑنے کے حیلے نکالے اور یہ کہا کہ سنیچر کا دن آنے سے پہلے جال اور مچھلی کے کانٹے پہلے سے پانی میں ڈال دیتے تھے۔ چناچہ مچھلیاں ان میں پھنس کر رہ جاتی تھیں۔ جب سنیچر کا دن گزر جاتا تھا تو ان کو پکڑ لیتے تھے اور اپنے نفسوں کو سمجھا لیتے تھے کہ ہم نے سنیچر کے دن ایک مچھلی بھی نہیں پکڑی، وہ تو خود بخود جالوں میں اور کانٹوں میں آگئیں اور جال اور کانٹے تو ہم نے جمعہ کے دن ڈالے تھے لہٰذا ہم سنیچر کے دن پکڑنے والوں کی فہرست میں نہیں آتے، اسی طرح کا ایک حیلہ انہوں نے مردار کی چربی کے ساتھ بھی کیا۔ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ یہودیوں پر اللہ لعنت کرے جب اللہ نے ان پر مردار کی چربی حرام قرار دیدی تو اس کو انہوں نے اچھی شکل دے دی (مثلاً اس کو پگھلا کر اس میں کچھ خوشبو وغیرہ ملا کر کیمیکل طور پر کچھ اور بنا دیا) پھر اس کو بیچ دیا اور اس کی قیمت کھا گئے۔ (رواہ البخاری ص ٢٩٨ ج ١)
ان لوگوں میں تین جماعتیں تھیں کچھ لوگ سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑتے تھے اور کچھ لوگ ایسے تھے جو انہیں منع کرتے تھے اور ایک جماعت ایسی تھی جو خاموش تھی، جو لوگ خاموش تھے انہوں نے ان لوگوں سے کہا جو منع کرتے تھے۔ کہ آپ لوگ ان کو کیوں نصیحت کرتے ہیں ان کا بات ماننے کا ارادہ نہیں ہے۔ نافرمانی کے باعث اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی گرفت ہونے والی ہے یا تو اللہ تعالیٰ ان کو بالکل ہی ہلاک فرما دے گا یا سخت عذاب میں مبتلا فرمائے گا۔ جو لوگ منع کیا کرتے تھے انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیشی کے وقت ہم معذرت پیش کرسکیں کہ ہم نے نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا تھا ان لوگوں نے نہ مانا، اور ممکن ہے کہ یہ لوگ مان ہی جائیں اپنے رب سے ڈرنے لگیں اور اپنے گناہوں سے بچنے لگیں، لیکن ان لوگوں نے نہ مانا بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت فرما لی۔ ان پر اس طرح عذاب آیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بندر بنا دیا، جو لوگ سنیچر کے دن میں زیادتی کرتے تھے وہ تو بندر بنا دئیے گئے اور جو لوگ انہیں منع کیا کرتے تھے انہیں نجات دے دی گئی جن کو (اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْھَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ ) میں بیان فرمایا، حضرت ابن عباس (رض) کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ جو لوگ خاموش تھے ان کا کیا ہوا ؟ ان کے شاگرد حضرت عکرمہ نے عرض کیا میری سمجھ میں تو یوں آتا ہے کہ وہ بھی عذاب سے بچا لیے گئے کیونکہ انہیں بھی شکار کرنے والوں کا عمل نا گوار تھا اور اسی نا گواری کو انہوں نے اپنے ان الفاظ میں یوں ظاہر کیا تھا۔ (لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَان اللّٰہُ مُھْلِکُھُمْ اَوْ مُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا) اللہ تعالیٰ نے ان کو نجات دینے کا تذکرہ نہیں فرمایا اور ہلاک کرنے کا ذکر بھی نہیں فرمایا، عکرمہ کی یہ بات حضرت ابن عباس (رض) کو بہت پسند آئی اور بہت خوش ہوئے اور انہیں دو چادریں انعام میں عطا کیں۔ (معالم التنزیل ص ٢٠٩ ج ٢)
سنیچر کے دن زیادتی کرنے والوں کو بندر بنا دیا گیا تھا جس کا ذکر یہاں سورة اعراف میں بھی ہے اور سورة بقرہ میں بھی گزر چکا ہے۔ (انوار البیان جلد اول)
جس بستی کے رہنے والے حیلہ باز یہودیوں کا قصہ اوپر مذکور ہوا ہے اس کے بارے میں علماء تفسیر نے کئی قول نقل کیے ہیں ١۔ ایلہ ٢۔ طبریہ ٣۔ مقنا، متعین طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ عبرت حاصل کرنے کے لیے تعیین کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
بنی اسرائیل پر دنیا میں عذاب آتا رہے گا :
بنی اسرائیل اپنی حرکتوں کی وجہ سے بندر بنا دیئے گئے یہ تو اس وقت ہوا اور اس کے بعد ان پر برابر ایسے لوگوں کا تسلط رہا جو ان کو تکلیفیں دیتے رہے اور یہودی بری بری تکلیفوں میں مبتلا ہوتے رہے اس کو (وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْھِمْ ) (الآیۃ) میں بیان فرمایا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہودیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہاتھ سے پھر بخت نصر کے ذریعہ جو ان کی بربادی ہوئی اور پھر نبی آخر الزمان سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پھر فاروق اعظم حضرت عمر فاروق بن الخطاب (رض) کے ہاتھوں جو ان کی ذلت ہوئی تاریخ دان اس سے ناواقف نہیں ہیں۔ حضرت فاروق اعظم (رض) کے بعد بھی دنیا میں مقہور ہی رہے ذلت اور خواری کے ساتھ ادھر ادھر دنیا میں کبھی آباد اور کبھی برباد ہوتے رہے۔ پچاس سال پہلے نازیوں نے جو ان کا قتل عام کیا تھا تاریخ کا مطالعہ کرنے والے اس سے واقف ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں بھی یہودی مارے جائیں گے۔ وہ دجال کو قتل کریں گے اور اس وقت دجال کے ساتھیوں کی بربادی ہوگی۔ دنیا کی قومیں ظاہری اقتدار دیکھ کر دجال کے ساتھ ہوجائیں گی جن میں یہودی بھی ہوں گے۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اصفہان کے یہودیوں میں سے ستر ہزار یہودی دجال کا اتباع کریں گے جو چادریں اوڑھے ہوئے ہوں گے۔ (صحیح مسلم ص ٤٠٥ ج ٢)
چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سر زمین شام میں دجال کو قتل کریں گے اور اس کے ساتھیوں سے وہیں معرکہ ہوگا اس لیے تکوینی طور پر دنیا بھر سے اپنے رہنے کے علاقے کو چھوڑ چھوڑ کر یہودی شام کے علاقے میں جمع ہو رہے ہیں اور ان کی جھوٹی حکومت جو نصاریٰ کے بل بوتے پر قائم ہے وہ ان کے ایک جگہ جمع ہونے کا سبب بن گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ مسلمان یہودیوں سے قتال نہ کرلیں مسلمان ان کو قتل کریں گے یہاں تک کہ کوئی یہودی کسی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپ جائے گا تو درخت یا پتھر کہے گا کہ اے مسلم اے اللہ کے بندے یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے اسے قتل کر دے البتہ غر قد کا درخت ایسا نہ کرے گا کیونکہ وہ یہودیوں کے درختوں میں سے ہے۔ (رواہ مسلم ص ٣٩٦ ج ٢)
انوارالبیان: مولانا عاشق الہی بلندشہری رح
Leave a Reply