اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَھٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭوَاللّٰهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ 68
ابراہیم کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی، نیز یہ نبی ( آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور وہ لوگ ہیں جو ( ان پر) ایمان لائے ہیں، اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے۔
بغوی نے کلبی کی روایت سے اور محمد بن اسحاق (رح) نے زہری کی روایت سے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ جب حضرت جعفر بن ابی طالب کچھ صحابیوں کو ساتھ لے کر مکہ چھوڑ کر حبشہ کو چلے گئے اور رسول اللہ بھی مدینہ کو ہجرت کر گئے اور پھر بدر کی جنگ بھی ہوچکی (جس میں بڑے بڑے قریشی سردار مارے گئے اور بہت سے گرفتار ہوگئے) تو اس کے بعد قریش نے مشورہ گھر میں کمیٹی کی اور کہنے لگے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو ساتھی نجاشی کے پاس چلے گئے ہیں ان کے ذمہ ہمارے مقتولین بدر کا قصاص ہے لہٰذا کچھ مال جمع کرکے نجاشی کے پاس بطور ہدیہ لے جاؤ ممکن ہے کہ تمہاری قوم کے جو لوگ اس کے پاس پہنچ گئے ہیں ان کو وہ تمہارے سپرد کردے (اور تم انتقام لے سکو) پس دو سمجھدار آدمیوں کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجو چنانچہ عمرو بن عاص اور عمارہ بن ابی معیط کو کچھ (طائف کے) چمڑے وغیرہ بطور ہدیہ دے کر نجاشی کے پاس سب نے باتفاق رائے بھیجا۔ یہ دونوں سمندری راستہ سے حبشہ جا پہنچے اور نجاشی کے دربار میں حاضر ہو کر اس کو سجدہ کیا اور دعا سلامتی دی اور عرض کیا : ہماری قوم آپ کی خیر خواہ اور شکر گذار ہے اور آپ کی عافیت کی طلبگار ہے قوم والوں نے ہم کو آپ کی خدمت میں اس بات پر آگاہ کرنے کے لیے بھیجا ہے کہ کچھ لوگ آپ کے پاس (مکہ کے) آئے ہیں ان سے آپ ہو شیار رہیں یہ لوگ ایک بڑے جھوٹے آدمی کے ساتھی ہیں جس نے رسول خدا ہونے کا دعویٰ کیا ہے مگر سوائے بیوقوفوں کے ہم میں سے کوئی بھی اس کے پیچھے نہیں ہوا ہم نے ان کو اتنا تنگ کیا کہ مجبور ہو کر انہوں نے ہمارے ملک کی ایک گھاٹی میں پناہ لی اور وہاں لوگوں کی آمد و رفت بند ہوگئی نہ وہاں سے کوئی باہر نکلتا ہے نہ باہر سے اندر جاتا ہے بھوک اور پیاس سے ان کی جانوں پر بنی ہوئی ہے آخر سختی سے تنگ آکر اس نے اپنے چچا کے بیٹے کو آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ وہ آپ کا مذہب خراب کردے اور آپ کی حکومت و رعیت کو بھی تباہ کردے آپ ان لوگوں سے احتیاط رکھیں اور ان کو ہمارے سپرد کردیں تاکہ ہم ان کو آپ سے روک دیں اور آپ کا کام ہوجائے ہمارے اس قول کا ثبوت یہ ہے کہ چونکہ وہ آپ کے دین اور طور طریقہ سے نفرت کرتے ہیں اس لیے جب وہ آپ کے سامنے آئیں گے تو سجدہ نہیں کریں گے اور نہ دوسروں کی طرح آداب شاہی بجا لائیں گے۔
نجاشی نے حضرت جعفرکو ساتھیوں سمیت طلب کیا یہ حضرت دروازہ پر ہی پہنچے تھے کہ حضرت جعفر نے چیخ کر کہا اللہ کا گروہ باریاب ہونے کی اجازت چاہتا ہے نجاشی نے آواز سن کر کہا اس چیخنے والے کو حکم دو کہ دوبارہ یہی الفاظ کہے حضرت جعفر نے پھر وہی کہا۔ نجاشی نے کہا جی ہاں۔ اللہ کے اذن اور ذمہ داری کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ عمرو بن عاص نے اپنی ساتھی سے کہا سن رہے ہو انہوں نے کس طرح لفظ حزب اللہ کہا اور نجاشی نے ان کو کیا جواب دیا۔ عمرو بن عاص اور عمارہ کو حضرت جعفر کے کلام اور نجاشی کے جواب سے دکھ ہوا۔ جب وہ حضرات اندر آئے تو نجاشی کو انہوں نے سجدہ نہیں کیا عمرو بن عاص نے نجاشی سے کہا آپ دیکھ رہے ہیں یہ آپ کو سجدہ کرنے سے بھی غرور کرتے ہیں (یعنی غرور کی وجہ سے آپ کو سجدہ بھی نہیں کرتے) نجاشی نے ان حضرات سے کہا کیا وجہ کہ تم نے مجھے سجدہ نہیں کیا اور وہ آداب بجا نہ لائے جو باہر سے آنے والے بجا لاتے ہیں صحابہ (رض) نے کہا ہم اس خدا کو سجدہ کرتے ہیں جس نے آپ کو پیدا کیا اور بادشاہ بنایا سلام کا یہ طریقہ ہمارا اس وقت تھا جب ہم بتوں کی پوجا کرتے تھے ١ ۔ لیکن اللہ نے ہمارے اندر ایک سچا نبی مبعوث فرمایا اس نے ہم کو اسی طرح سلام کرنے کا حکم دیا جو اللہ کو پسند تھا یعنی لفظ سلام کہنے کا یہی اہل جنت کا سلام ہے۔ اس گفتگو سے نجاشی سمجھ گیا کہ یہی بات حق ہے اور توریت و انجیل میں بھی یہی ہے۔ بولا تم میں سے کون ہے جس نے حزب اللہ کہہ کر باریاب ہونے کی چیخ کر اجازت طلب کی تھی۔ حضرت جعفر (رض) نے فرمایا : میں ہوں اس کے بعد آپ نے فرمایا : کوئی شبہ نہیں کہ آپ زمین کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ ہیں اور اہل کتاب میں سے ہیں آپ کے سامنے نہ زیادہ باتیں کرنا مناسب ہے، نہ کسی پر ظلم (آپ کے لیے سزاوار ہے) میں چاہتا ہوں کہ اپنے ساتھیوں کی طرف سے (تنہا) خود جواب دوں۔ آپ ان دونوں آدمیوں کو حکم دیدیجئے کہ ان میں سے ایک بات کرے اور دوسرا خاموش رہ کر ہماری گفتگو سنتا رہے یہ سن کر عمرو نے حضرت جعفر (رض) سے کہا بولو حضرت جعفر نے نجاشی سے کہا ان دونوں سے دریافت کیجئے کہ ہم کیا آزاد ہیں یا غلام (کہ بھاگ کر آگئے ہیں) ؟ عمرو نے کہا نہیں تم آزاد ہو اور معزز ہو۔ نجاشی نے کہا : غلام ہونے (کے الزام) سے تو بچ گئے۔ جعفر نے کہا ان سے دریافت کیجئے کیا ہم نے ناحق کوئی خون کیا ہے جس کا قصاص ہم سے لیا جائے ؟ عمرو نے کہا نہیں ایک قطرۂ خون بھی نہیں بہایا۔ جعفر (رض) نے کہا کیا ہم نے ناحق لوگوں کا مول لے لیا ہے جس کی ادائیگی ہمارے ذمہ ہے ؟ نجاشی نے کہ اگر (تمہارے ذمہ) قنطار ٢ بھی ہوگا تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ۔ عمرو نے کہا کوئی مال نہیں ایک قیراط بھی نہیں۔ نجاشی نے کہا تو پھر تم ان سے کیا مطالبہ کرتے ہو ؟ عمرو نے کہا ہم اور یہ ایک مذہب اور ایک طریقہ پر تھے باپ دادا کے دین پر تھے انہوں نے اس دین کو چھوڑ دیا اور دوسرے مذہب کے پیرو ہوگئے اس لیے ہماری قوم نے ہم کو آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ ان کو ہمارے حوالے کردیں۔ نجاشی نے پوچھا مجھے سچ سچ بتاؤ وہ مذہب جس پر تم تھے وہ کیا تھا اور جس دین کے اب پیرو ہو وہ کیا ہے ؟ جعفر نے کہا جس مذہب پر ہم تھے وہ شیطان کا دین تھا ہم اللہ کا انکار کرتے تھے پتھروں کو پوجتے تھے اور پلٹ کر جس دین کو ہم نے اختیار کیا وہ اللہ کا دین اسلام ہے اللہ کے پاس سے اس دین کو لے کر ہمارے پاس ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیا اور ایک کتاب بھی ویسی ہی آئی جیسی ابن مریم ( علیہ السلام) لے کر آئے تھے یہ کتاب بھی اس کتاب کے موافق ہے نجاشی نے کہا تم نے بڑا بول بولا ہے۔ نرم رفتار پر رہو اس کے بعد نجاشی کے حکم سے ناقوس بجایا گیا اور تمام عیسائی علماء و مشائخ جمع ہوگئے جب سب اکٹھے ہوگئے تو نجاشی نے ان سے کہا میں تم کو اس خدا کی جس نے عیسیٰ پر انجیل نازل کی تھی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم کو ٣ یہ بات ملتی ہے کہ عیسیٰ اور قیامت کے درمیان کوئی نبی مرسل آئے گا۔ علماء نے جواب دیا بیشک خدا گواہ ہے ایسا ہے ہم کو عیسیٰ نے اس کی بشارت دی ہے اور یہ بھی فرما دیا ہے کہ جو اس پر ایمان لایا وہ مجھ پر ایمان لایا اور جس نے اس کا انکار کیا اس نے میرا انکار کیا۔ نجاشی نے جعفر (رض) سے کہا یہ شخص تم سے کیا کہتا ہے کیا کرنے کا حکم دیتا ہے اور کس چیز سے منع کرتا ہے ؟ جعفر (رض) نے جواب دیا وہ ہمارے سامنے اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں، اچھے کاموں کا حکم دیتے ہیں، برے کاموں سے روکتے ہیں، ہمسایوں سے حسن سلوک کرنے، قرابت داروں سے میل رکھنے اور یتیموں کو نوازنے کا حکم دیتے ہیں اور یہ بھی ہدایت فرماتے ہیں کہ ہم فقط اللہ ہی کی پوجا کریں جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
نجاشی نے کہا جو کلام وہ تمہارے سامنے پڑھتے ہیں اس میں سے کچھ مجھے سناؤ۔ حضرت جعفر نے سورة عنکبوت و روم کی تلاوت کی جس کو سن کر نجاشی اور اس کے ساتھیوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے نجاشی کے ساتھی بولے۔ جعفر (رض) یہ پاکیزہ کلام کو کچھ اور سناؤ۔ حضرت جعفر (رض) نے سورة کہف پڑھ کر سنائی۔ یہ حالت دیکھ عمرو بن عاص نے چاہا کہ نجاشی کو جعفر پر غصہ دلادے اس لیے کہنے لگا یہ لوگ عیسیٰ اور ان کی ماں کو گالی دیتے ہیں اس پر نجاشی نے جعفر سے پوچھا تم عیسیٰ اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ حضرت جعفر نے جواب میں سورة مریم ( علیہ السلام) کی تلاوت کی اور مریم و عیسیٰ کے تذکرہ پر پہنچے تو نجاشی نے اپنی مسواک کا اتنا باریک ریزہ جیسے آنکھ میں تنکا پڑجاتا ہے اٹھایا اور کہنے لگا۔
خدا کی قسم مسیح اس بیان سے اتنے بھی زائد نہ تھے پھر جعفر اور ان کے ساتھیوں سے خطاب کرکے کہا جاؤ میرے ملک میں تم محفوظ ہو یعنی امن کے ساتھ رہو جو تم کو گالی دے گا یا کچھ ستائے گا اس کو سزا بھگتنا ہوگی پھر کہنے لگا تم خوش رہو کچھ اندیشہ نہ کرو۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے گروہ کا آج بگاڑ نہیں ہوگا۔ عمرو نے پوچھا نجاشی ابراہیم (علیہ السلام) کی جماعت کونسی ہے ؟ نجاشی نے جواب دیا یہی گروہ اور ان کا وہ آقا جس کے پاس سے یہ آئے ہیں اور ان کی پیروی کرنے والے۔ مشرکین نے اس بات کو ماننے سے انکار کیا اور خود دین ابراہیمی میں ہونے کا دعویٰ کیا پھر نجاشی نے وہ مال واپس کردیا جو عمرو اور اس کا ساتھی لے کر آئے تھے اور کہا تمہارا یہ ہدیہ محض رشوت ہے اس پر اپنا قبضہ کرلو اللہ نے بغیررشوت لیے مجھے بادشاہت عطا فرمائی ہے حضرت جعفر کا بیان ہے کہ پھر ہم لوٹ آئے اور بہترین مکان اور بڑی عزت کی عمدہ مہمانی میں رہے ادھر اللہ نے اسی روز مدینہ میں رسول اللہ پر حضرت ابراہیم کے دین پر ہونے کے نزاع کے متعلق یہ آیت نازل فرمادی : ان اولی الناس بابراہیم۔۔ .
تفسیرِ مظہری