سب سے بڑی نعمت ترکِ معصیت یعنی تقویٰ ہے۔ اس لیے اس نعمت پر شکر کرنا بھی سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ اس نعمت کے بغیر کوئی ولی اللہ نہیں بن سکتا، غیرمتقی کو اللہ کی دوستی مل ہی نہیں سکتی، جب تقویٰ کا آغاز ہوتا ہے، اسی وقت اللہ کی دوستی کا آغاز ہوتا ہے اور متقی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس سے کبھی گناہ ہی نہ ہو۔ متقی رہنا اتنا ہی آسان جتنا باوضو رہنا۔ اگر وضو ٹوٹ جائے تو پھر وضو کرلو۔ اگر گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کرکے پھر متقی بن جائو۔
اوّل تو کوشش کرنے سے ان شاء اللہ گناہ بالکل چھوٹ جاتے ہیں۔ جس کے دل میں اللہ آجاتا ہے اس کو گناہوں سے شرم آتی ہے۔ میرا شعر ہے ؎
جب تجلّی اُن کی ہوتی ہے دل برباد میں
آرزوئے ماسوا سے خود ہی شرماتا ہے دل
لیکن اگر باوجود کوشش کے پھر گناہ ہوجائے تو توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہے۔
{اِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَالم یُغَرْغِرْ او کما قال علیہ الصلٰوۃ والسلام}
جب تک موت کا غرغرہ نہ شروع ہوجائے اللہ بندے کی توبہ کو قبول کرتا ہے۔
بہرحال توبہ سے گناہوں کی معافی تو ہوجاتی ہے لیکن شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ گناہ کبھی نہ ہو اور طبیعت شریف بن جاتی ہے۔ جب دل میں وہ حقیقی شریف یعنی اللہ آجاتا ہے، پھر غیرشریفانہ حرکت سے خود شرم آتی ہے۔ جب تک دل میں اللہ نہیں آتا یعنی جب تک
اللہ تعالیٰ سے نسبت خاصہ حاصل نہیں ہوتی اس وقت تک گناہوں کے تقاضوں سے آدمی مغلوب ہوجاتا ہے لیکن جب دردِدل مستقل ہوجاتا ہے، اللہ سے نسبت مستقل قائم ہوجاتی ہے، تعلق مع اللہ علٰی سطح الولایۃ نصیب ہوجاتا ہے تو پھر آدمی گناہو ںسے کانپتا رہتا ہے اور اس غم میں گھلتا رہتا ہے کہ کہیں مجھ سے گناہ نہ ہوجائے۔
کتاب: حقیقت شکر .مواعظِ حسنہ:۴۰