علاج الغضب
۔۔۔ سلسلہ مواعظ حسنہ نمبر: ۴
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ
امام بخاری رحمہ اللہ بابِ کفالت کے اندر اولیاء اللہ کی کرامت کی حدیث لائے ہیں اور اولیاء اللہ کی کرامت کو بیان کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ولی کی کرامت کو بیان فرمارہے ہیں۔ پیغمبر ایک امتی کی کرامت کو بیان فرمارہے ہیں کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص کو جو اللہ تعالیٰ کے مقبول اور ولی تھے ایک ضرورت پیش آئی۔ انہوں نے ایک شخص سے ایک ہزار دینار قرضہ مانگا۔ قرض دینے والے نے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے؟ انہوں نے کہا : کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا۔‘‘ اللہ تعالیٰ باعتبار شاہد کے کافی ہیں یعنی شاہد کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کافی ہے پھر اس نے کہا کوئی کفیل اور ذمہ دار لائو کہ اگر تم نہ دو تو ہم کس سے وصول کریں؟ تب انہوں نے جواب دیا: ’’کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہی ہمارا وکیل اور کارساز ہے، وہی ہمارا کفیل ہے۔ یہ دو مضمون سن کر اس نے کہا: ’’صَدَقْتَ‘‘ تم نے سچ کہا۔ تم اپنے قول میں صادق ہو اور فوراً ایک ہزار دینار قرض دے دیا اور وہ دریا پار چلے گئے اور اپنی ضرورت کو پورا کیا۔
جس دن قرض ادا کرنے کا وعدہ تھا اس دن وہ دینار لے کر پھر آئے لیکن کوئی سواری نہ ملی۔ بے بے چارے بے چین تھے کہ کوئی کشتی ملے تو دریا پار جاکر اس کا قرض دے دیں۔ جب کوئی سواری نہ ملی تو انہوں نے لکڑی کا ایک موٹا سا کندالیا، اس میں سوراخ کیا اور ایک ہزار دینار میں رکھ دیئے۔ اوپر سے کیل لگاکر مضبوطی سے بند کردیا اور اللہ کے بھروسہ پر دریا میں ڈال دیا اور کہا یااللہ! آپ کو معلوم ہے کہ میں نے فلاں شخص سے قرضہ لیا تھا اور میں نے بہت کوشش کی کہ مجھے کوئی سواری مل جائے لیکن نہ ملی بس آپ اس کو حفاظت سے اس تک پہنچادیجئے جس سے میں نے قرض لیا تھا۔ اب ہوائوں کے تھپیڑوں میں لکڑی کا وہ بڑا سا ٹکڑا چل رہا ہے۔ کہیں اور بھی جاسکتا تھا۔ یہ کرامت تھی کہ ہوائوں کے تھپیڑوں سے اس بستی میں پہنچ گیا۔ اُدھر وہ صاحب انتظار کررہے تھے کہ شاید کسی کشتی سے وہ شخص میرا مال لے کر آجائے کہ اچانک دیکھا کہ ایک لکڑی کا ٹکڑا بہتا ہوا آرہا ہے۔ وہ انہوں نے اپنی بیوی کے لیے لے لیا کہ چلو چولہا گرم کرنے کا سامان اللہ نے بھیج دیا۔ بس اس پر کلہاڑی جو ماری تو ایک ہزار دینار اس میں سے نکل آئے اور ایک پرچہ بھی اس میں رکھا ہوا تھا کہ اے شخص! مجھ کو سواری نہیں ملی لہٰذا مجبوراً میں اللہ کے بھروسہ پر یہ بھیج رہا ہوں۔ اس کے بعد ان کو کشتی بھی مل گئی۔ کشتی پر بیٹھ کر وہ پھر ایک ہزار دینار لائے کہ ممکن ہے کہ پہلے دینار نہ ملے ہوں۔ لہٰذا جب انہوں نے پیش کئے تو اس نے کہا کہ آپ نے تو پہلے ہی بھیج دیے تھے اور سارا واقعہ بیان کیا کہ لکڑی کے اندر سے اس طرح سارا روپیہ مل گیا۔ فَانْصَرَفَ بِاَلْفِ دِیْنَارٍ رَاشِدًا پس نہایت ہی خوش اور اللہ تعالیٰ کے اس فضل اور کرامت پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے واپس ہوگئے۔
(بخاری شریف کتاب الکفالۃ: ص ۳۰۶، ج۱)