انسان کے دو دشمن ہیں، ایک نفس ایک شیطان، نفس داخلی دشمن ہے شیطان خارجی دشمن ہے۔ ان دونوں دشمنوں میں فرق کیا ہے؟ نفس وہ دشمن ہے جو اصلاح کے بعد ولی اﷲ بھی ہوسکتا ہے لیکن شیطان وہ دشمن ہے جو مردودِ دائمی ہے، یہ کبھی ولی اﷲ نہیں ہوسکتا۔ دونوں دشمنوں کا یہ فرق اﷲ تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمایا، میں نے کتابوں میں کہیں نہیں دیکھا حالانکہ دونوں دشمن نصِ قطعی سے ہیں، دونوں دشمنوں کا ثبوت قرآنِ پاک اور حدیثِ پاک میں ہے لیکن دونوں دشمنوں میں فرق یہ ہے کہ تھوڑی سی محنت کرلو تو نفس ولی اﷲ ہوجاتا ہے اور شیطان پر کتنی محنت کرو یہ کبھی ولی اﷲ نہیں ہوسکتا یہ ہمیشہ مردود رہے گا،یہ فرق ہے دونوں دشمنوں میں۔
تو مشکاۃ شریف سے ملا علی قاری کی شرح ہوگئی کہ نفس متوسطہ ہے، بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجِسْمِ ہے یعنی روح لطیف ہے اور جسم کثیف ہے، اگر عمل اچھا ہوا تو اس میں لطافت آجاتی ہے یہاں تک کہ اسی نفس کے ساتھ لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے یعنی ولی اﷲ ہوگئے، عبادت یہ نفس ہی تو کرتا ہے، کام تو اسی ظالم سے لینا ہے، یہ تو مزدور ہے، گھوڑا ہے، اسی پر بیٹھ کر اﷲ تک پہنچنا ہے، مگر ایسا گھوڑا جو سوار کو گرا دے وہ منزل تک نہیں پہنچنے دیتا لہٰذا نفس کو اتنا مسٹنڈا مت کرو، اتنا مرغ وماہی مت کھلاؤ کہ جس سے نفس تم پر سواری کرلے، سواری پر سوار ہونا چاہیے نہ کہ سواری ہی سوار پر سوار ہوجائے، تو جو نفس کی بات مانتا ہے اور اﷲ کی نافرمانی کرتاہے یہ دلیل ہے کہ نفس کی سواری اس پر سواری کررہی ہے۔
اگر آپ گھوڑے پر جارہے ہیں اور دوہزار گز گہری کھائی آگئی اور نیچے ہری ہری گھاس ہے، سبزہ اُگا ہوا ہے تو اگر آپ نے نہ روکا تو گھوڑا گھاس کے لالچ میں کھائی میں کود کر جان دے دے گا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر آپ روکتے ہیں تو چونکہ گھوڑا بھوکا ہے اور ہری گھاس کا عاشق ہے، لگام کھینچنے کے باوجود بے تابی سے کھائی میں کودنے کی کوشش کرے گا، سوار کو چاہیے کہ اس وقت پوری طاقت سے لگام کھینچے چاہے گھوڑے کا گال پھٹ جائے، اگر سوار پوری طاقت سے اسے روکنے کی کوشش نہیں کرے گا تو گھوڑا بھی مرے گا اور سوار بھی مرے گا لہٰذا ہمت سے کام لو اور لگام پوری قوت سے کھینچو، زیادہ سے زیادہ گھوڑے کاگال پھٹ جائے گا، اس کی اصلاح آسان ہے، مویشی کے ڈاکٹر کے یہاں لے جاؤ، وہ مرہم پٹی کردے گا، انجکشن وغیرہ لگا دے گا لیکن اگر تم نے اس کے گالوں کی فکر کی تو تمہارا کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہوگا، تم ہلاک ہوجاؤ گے۔ تو جو لوگ گناہ میں نفس کی لگام ہلکی رکھتے ہیں وہ گناہ کر بیٹھتے ہیں اور اﷲ کے قہر اور عذاب کے گڈھے میں نفس بھی گرتا ہے اور خود بھی گرتے ہیں لہٰذا جسم کی فکر نہ کرو کہ گناہ چھوڑنے سے اس کو غم پہنچے گا بلکہ ان شاء اﷲ تعالیٰ اپنے نام کی برکت سے اﷲ تعالیٰ جسم کو صحت مند کردیں گے۔ تو یہ مثال کیسی ہے، اب کوئی پاگل ہی ہوگا جو کہے گا کہ گھوڑے کو گھاس کھانے کے لیے کھائی میں کود جانے دو، عقلمند سوار گھوڑے کو پوری طاقت سے روکے گا۔ بس گناہ سے بچنے میں بھی دانت پیس کے پوری طاقت سے ارادہ کرلو کہ گناہ نہیں کرناہے ؎
نہ دیکھیں گے نہ دیکھیں گے انہیں ہرگز نہ دیکھیں گے
کہ جن کے دیکھنے سے رب مرا ناراض ہوتا ہے
نہیں ناخوش کریں گے رب کو اے دل تیرے کہنے سے
اگر یہ جان جاتی ہے خوشی سے جان دے دیں گے
اور پھر یہ شعر پڑھیں؎
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
کتاب: خزائن معرفت ومحبت
شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ