حدیث نمبر۱۵۴ وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ فَرَأَيْتُ فِيهَا امْرَأَةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ تُعَذَّبُ فِي هِرَّةٍ لَهَا رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا وَرَأَيْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرٍ الْخُزَاعِيَّ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ سَيَّبَ السَّوَائِبَ» . رَوَاهُ مُسلم
(مسلم : کتاب الکسوف ص ۲۹۷، ج۱،شرح السنۃ ص ۳۸۲،ج۷، رقم(۴۰۷۹)
ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا پیش کی گئی میرے سامنے دوزخ کی آگ (یعنی شب معراج میں یا خواب میں یا بیداری میں ) میں نے اس میں بنی اسرائیل کی ایک عورت کو دیکھا جس کو ایک بلی کے معاملہ میں عذاب کیا جارہا ہے جس کو اس نے باندھ کر رکھا تھا نہ تو وہ اس کو کھانے کو دیتی تھی اور نہ اس کی رسی کھولتی تھی کہ وہ حشر الارض میں سے (چل پھر کر )کچھ کھا لے یہاں تک کہ وہ بلی بھوک سے مرگئی اورمیں نے عمربن عامرخزاعی کو دیکھا جو اپنی آنتوں کو دوزخ کی آگ میں کھینچ رہا تھا اور یہ سب سے پہلا شخص تھا۔جس نے سانڈ چھوڑنے کی رسم نکالی تھی۔
تشریح:پہلے زمانۂ جاہلیت میں رواج تھا کہ جو اونٹنی ہمیشہ مادہ جنتی یا کوئی مسافر دور دراز سے آتا یا کوئی بیمار شفاء پاتا تو اونٹنی آزاد کرتے اور اس کو چھوڑ دیتے ۔اس پر سواری نہ کرتے جہاں سے وہ چاہتی چرتی پانی پیتی اور اس عمل کو بت کے تقرب کا ذریعہ سمجھاجاتا ۔اس رسم کی ابتداء کرنے والا اور بنیاد رکھنے والا یہی عمرو بن عامر خزاعی ہے اور علماء نے لکھا ہے کہ بتوں کی پرستش کی ایجاد کرنے والا بھی یہی ہے ۔اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ بعض آدمی ابھی سے دوزخ میں ہیں اوربعض علماء نے کہا ہے کہ قیامت کے دن جو اس پرہونے والا ہے وہ حالت آپ پر منکشف کی گئی اور صورت اس کی دکھادی گئی ۔واللہ اعلم
کتاب: رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت .
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ