حدیث نمبر۱۵۳ وَعَنْ أُمِّ الْعَلَاءِ الْأَنْصَارِيَّةِ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ لَا أَدْرِي وَاللَّهِ لَا أَدْرِي وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَا يُفْعَلُ بِي وبكم» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
(کتاب الشھادات باب القرعۃ فی المشکلات ص ۳۶۹،ج۱)
ترجمہ:حضرت ام العلاء انصاریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میں اگرچہ اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں لیکن اللہ کی قسم یہ نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا (معاملہ)کیا جائے گا اور تمھارے ساتھ کیا (معاملہ) کیاجائے گا)
تشریح:یہ حدیث اس وقت وارد ہوئی جب حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو کبائر مہاجرین صحابہ میں سے تھے انتقال ہوا اور جنت البقیع میں حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی موت کے بعد ان کی پیشانی کا بوسہ دیا اور آنسوبہائے اور بہت عنایات فرمائیں ۔ایک عورت جو وہاں حاضر تھی کہا کہ اے ابن مظعون بہشت تجھ کو مبارک ہو کہ عاقبت تیری بخیر ہے پس آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس عورت کر زجر وتنبیہ فرمائی کہ غیب کے فیصلوں پر ایسے یقین کے ساتھ دعویٰ کرنا اور پھر رو برو پیغمبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ایسی جرأت سے بولنا بے ادبی اورنادانی ہے اور حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اپنے متعلق یہ فرمانا کہ میں نہیں جانتاکہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہو گا یہ دراصل آپ کا غلبۂ استحضار عظمت و کبریائی حق سے راہ ادب اختیار کرنا ہے اور حقیقت کلام کی مراد نہیں یا یہ مراد ہو کہ عاقبت کا حال تفصیل کے ساتھ معلوم نہیں اگرچہ مجملاً آپ کو علم تھا کہ عاقبت جملہ انبیاء علہیم السلام کی بخیر ہے یا مراد ہو کہ میں نہیں جانتا موت سے مروں گایا قتل سے اور نہیں جانتا میں کہ تم پر اگلی امتوں کی طرح سے عذاب نازل ہو گا یانہیں اور حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اس آیت کے نزول سے قبل ہے لِیَغْفِرَلَکَ اللہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَاتَاَخَّرْ (سورۃ الفتح پارہ ۲۶،آیت ۲)اس آیت کے نزول کے بعد آپﷺ کو یقین ہوا کہ عاقبت بخیرہے کذاقیل واللہ اعلم۔(مرقات ص۱۹۸،ج۹)
کتاب: رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت .
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ