حدیث نمبر ۱۸۴ وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ (وَأَنْذِرْ عشيرتك الْأَقْرَبين)دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرَيْشًا فَاجْتَمَعُوا فَعَمَّ وَخَصَّ فَقَالَ: «يَا بَنِي كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ يَا بَنِي مُرَّةَ بْنِ كَعْبٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ. يَا بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ من النَّار يَا بني عبد منَاف أَنْقِذُوا أَنفسكُم من النَّار. با بَنِي هَاشِمٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ. يَا بني عبد الْمطلب أَنْقِذُوا أَنفسكُم من النَّار. يَا فَاطِمَةُ أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّ لَكُمْ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا» . رَوَاهُ مُسْلِمٌوَفَى الْمُتَّفَقِ عَلَيْهِ قَالَ: «يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا. وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا»
(بخاری : کتاب التفسیر سورۃ الشعراء ص ۷۰۲،ج۲)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی وانذرعشیرتک الاقربین اےنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ! آپ ڈرائیے اپنے کنبہ کے لوگوں کو جو بہت قریب کے ہیں )تو نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قریش کو بلایا ۔جب وہ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خطاب میں تعمیم کی اور تخصیص بھی (یعنی ان کے جد بعید کا نام لے کر بھی مخاطب کیا تاکہ سب کو عام و شامل ہو جائے اور ان کےجد قریب کا نام لے کر بھی مخاطب کیا تاکہ بعض کے ساتھ مخصوص ہو جائے)چناچہ آپ نے فرمایا اے کعب بن لوی کی اولاد !اپنی جانوں کی دوزخ کی آگ سے بچائو ۔اے عبد شمس کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو ۔اے عبد مناف کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو ۔اے ہاشم کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو ۔اے عبدالمطلب کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو۔
اے فاطمہ اپنی جان کو آگ سے بچا۔اس لیے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں (یعنی میں کسی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا )البتہ مجھ پر تمہارا قرابت کا حق ہے جس کو میں قرابت کی تری سے تر کرتا ہوں ۔
اور بخاری و مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا اے قریش کی جماعت ! اپنی جانوں کو خریدلو (یعنی ایمان لاکر اور طاعت و فرماں برداری کر کے دوزخ کی آگ سے اپنے آپ کو بچالو )میں تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب میں سے کچھ بھی دور نہیں کر سکتا اور اے عبد مناف کی اولاد! میں تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا ۔اے عباس ابن عبدالمطلب ! میں تم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دفع نہیں بچا سکتا ۔
اور اے رسول اللہ کی پھوپھی صفیہ! میں تم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچاسکتا۔اور اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ! میرے مال میں سے جو کچھ تو چاہے مانگ لے لیکن میں تجھ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا ۔
تشریح:اس حدیث سے امت کو یہ سبق ملتا ہے کہ جب سید الانبیاءصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو محنت کی طرف متوجہ کیا گیا تو آج کس احمق و نادان کا منہ کہ پیروں یا اولیاء کی سفارش پر یا خود سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفاعت کے بھروسہ پر یا حق تعالیٰ شانہ کی رحمت کے بھروسے پر گناہوں اور سرکشی پرجری اور گستاخی ہو اور نیک اعمال سے بے پروا ہو ۔خود سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جو حق تعالیٰ شانہ کے لاڈلے اورمحبوب رسول ہیں اور ایسے محبوب ہیں جو آپ کے نقش قدم کی اتباع کرے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو جاوے کس قدر عبادت فرماتے تھے کہ طولِ قیام سے پائوں مبارک میں ورم آجاتا تھا ،تعجب ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی شان رحمت پر بھروسہ کا پر فریب دعویٰ کرکے نیک اعمال سے کاہل اورگناہوں میں چست و چالاک بنے ہیں یہی لوگ حق تعالیٰ کی دوسری صفت رزّاقیت پر بھروسہ کرکے گھر میں نہیں بیٹھتے بلکہ روزی کے لیے مارے مارے سرگرداں و پر یشاں در بدر چکّر کاٹتے ہیں اور کس کس خاک آستاں کو بوسہ دیتے ہیں اور آخرت کے معاملہ میں اپنی غفلت اور کاہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے توکّل کا سہارالیتے ہیں یہ کیسا توکّل ہے کہ ایک صفت پر توکل ہو اور دوسری صفت پر توکل نہ ہو تو یہ توکل تو اپنے مطلب کاتوکل ہوا؎
مصطفٰے فرمودہ با واز بلند
بر توکّل زانوئے اشتربہ بند
حضرت مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ کو رسی سے باندھ دو پھر توکل اللہ تعالیٰ پر کرو رسی پر توکل نہ کرو۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تدبیر کو چھوڑ توکل نہیں بلکہ تدبیر کرکے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا اور تدبیر پر بھروسہ نہ کرنے کا نام اصل توکل اور صحیح توکل ہے۔پس آخرت کے لیے بھی اعمال صالحہ اختیار کرے اور گناہوں سے بچنے کی تکالیف کو برداشت کرے اور پھر مغفرت کے لیے اپنے ان اعمال پر بھروسہ نہ کرے بلکہ حق تعالیٰ کی رحمت پر بھروسہ کرے۔
حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اُوْلئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللہِ ط (سورۃ البقرۃ پارہ ۲،آیت ۲۱۸)یہ وہ لوگ ہیں جواللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہیں اس کلام ربّانی سے بھی معلوم ہوتا ہےایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید پیدا ہوتی ہے اور نافرمانی پر اصرار اور توبہ نہ کرنے سے اس امیداور نورِ ایمان میں کمزوری پیداہوتی ہے۔
کتاب: رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت .
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ