حدیث نمبر۱۳ وَعَن مُطرّف عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يقْرَأ: (آلهاكم التكاثر) قَالَ: ” يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِي مَالِي “. قَالَ: «وَهَلْ لَكَ يَا ابْنَ آدَمَ إِلَّا مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ أَوْ تصدَّقت فأمضيت. رَوَاهُ مُسلم
مسلم : کتاب الزھد ص ۴۰۷،ج۲
ترجمہ: حضرت مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اَلْھَکُمُ التَّکَاثُرُ پڑھ رہے تھے (یعنی سورہ الھکم التکاثر جس کے معنی یہ ہیں کہ اے لوگوں اپنے مال کی زیادتی پر باہم فخر کرنے کے سبب آخرت کے خیال سے بے پروا ہو گئے ہو یعنی مال کی زیادتی پر فخر کرنے کی وجہ سے تمھارے قلوب میں اندیشۂ آخرت باقی نہیں رہاہے)
پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدم کا بیٹا میرا مال میرا مال کہتا رہتا ہے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ آدم کے بیٹے تیرے مال میں سے تجھ کو کچھ نہیں ملتا مگر صرف اتنا جتنا کہ
تو نے کھایا اور خراب کر دیا
پہنا اور پھاڑ ڈالا
اور خیرات کر دیا اور آخرت کے لئے ذخیرہ کیا
(مسلم)
تشریح: آدمی مال کے بڑھانے کی فکر میں آخرت کے اعمال سے غافل ہو جاتا ہے۔ جس کے سبب پردیس کا امیر اور وطن آخرت کا قلاش اور مفلس ہو جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا نادانی ہو سکتی ہے۔ حق تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔
کتاب: رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت .
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ