کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا!

ترجمہ اور تفسیر
معارف القرآن، مفتی محمد شفیع صاحب رح

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْهِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا 27؀

اور جس دن ظالم انسان (حسرت سے) اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھائے گا، اور کہے گا : کاش میں نے پیغمبر کی ہمراہی اختیار کرلی ہوتی۔

يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا
ہائے میری بربادی ! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔

(25:28)

یہ آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے مگر حکم عام ہے واقعہ یہ تھا کہ عقبہ ابن ابی معیط مکہ کے مشرک سرداروں میں سے تھا اس کی عادت تھی کہ جب کسی سفر سے واپس آتا تو شہر کے معزز لوگوں کی دعوت کرتا تھا اور اکثر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ملا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ حسب عادت اس نے معززین شہر کی دعوت کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی بلایا۔ جب اس نے آپ کے سامنے کھانا رکھا تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہارا کھانا اس وقت تک نہیں کھا سکتا جب تک تم اس کی گواہی نہ دو کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اس کا کوئی شریک عبادت میں نہیں ہے اور یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ عقبہ نے یہ کلمہ پڑھ لیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرط کے مطابق کھانا تناول فرمایا۔

عقبہ کا ایک گہرا دوست ابی بن خلف تھا جب اس کو خبر لگی کہ عقبہ مسلمان ہوگیا تو یہ بہت برہم ہوا۔ عقبہ نے عذر کیا کہ قریش کے معزز مہمان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے گھر پر آئے ہوئے تھے اگر وہ بغیر کھانا کھائے میرے گھر سے چلے جاتے تو میرے لئے بڑی رسوائی تھی اس لئے میں نے ان کی خاطر سے یہ کلمہ کہہ لیا۔ ابی بن خلف نے کہا کہ میں تیری ایسی باتوں کو قبول نہیں کروں گا جب تک تو جا کر ان کے منہ پر نہ تھوکے۔ یہ کمخبت بدنصیب دوست کے کہنے سے اس گستاخی پر آمادہ ہوگیا اور کر گزرا، اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی ان دونوں کو ذلیل کیا کہ غزوہ بدر میں دونوں مارے گئے (بغوی) اور آخرت میں ان کے عذاب کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے کہ جب آخرت کا عذاب سامنے دیکھے گا تو اس وقت ندامت و افسوس سے اپنے ہاتھ کاٹنے لگے گا اور کہے گا کاش میں فلاں یعنی ابی بن خلف کو دوست نہ بناتا۔ (مظہری و قرطبی)

غلط کار اور بےدین دوستوں کی دوستی قیامت کے روز حسرت و ندامت کا باعث ہوگی :

تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ آیات اگرچہ خاص عقبہ کے واقعہ میں نازل ہوئی تھیں لیکن جیسا کہ الفاظ آیت کے عام ہیں حکم بھی عام ہے اور شاید اس جگہ اس دوست کے نام کی بجائے قرآن میں فلانا کا لفظ اسی عموما کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔ ان آیات نے یہ بتلایا ہے کہ جو دو دوست کسی مصیبت اور گناہ پر جمع ہوں اور خلاف شرع امور میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے ہوں ان سب کا یہی حکم ہے کہ قیامت کے روز اس گہرے دوست کی دوستی پر روئیں گے۔

مسند احمد، ترمذی، ابو داؤد وغیرہ نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، لا تصاحب الا مومنا ولا یا کل مالک الا تقی (مظہری) کسی غیر مسلم کو اپنا ساتھی نہ بناؤ، اور تمہارا مال (بطور دوستی کے) صرف متقی آدمی کھائے، یعنی غیر متقی سے دوستی نہ کرو،

اور ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
المرء علی دین خلیلہ فلینظر من یخالل (رواہ البخاری)
" ہر انسان (عادةً ) اپنے دوست کے دین اور طریقہ پر چلا کرتا ہے اس لئے دوست بنانے سے پہلے خوب غور کرلیا کرو کہ کس کو دوست بنا رہے ہو "۔

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ ہمارے مجلسی دوستوں میں کون لوگ بہتر ہیں تو آپ نے فرمایا :
من ذکر کم باللہ رویتہ وزاد فی علمکم منطقہ وذکرکم بالاخرة عملہ رواہ البزار (قرطبی)
" وہ شخص جس کو دیکھ کر خدا یاد آئے اور جس کی گفتگو سے تمہارا علم بڑھے اور جس کے عمل کو دیکھ کر آخرت کی یاد تازہ ہو "۔

signature.gif?u=380741&e=33271909&v=434d6f0d6c7f069a2edaebc8f95e639836638c960eca29140e526ab1718bc1ec

Comments are closed.