والدہ کی خدمت کا ثمر

​وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖٓ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً ۭ قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا ۭ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ 67؀

اِس حدیث کو حضرت سعید بن منصور نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کیا ہے اور ابن جریر نے بسند صحیح حضرت ابن عباس (رض) سے موقوفاً روایت کیا ہے ان کی اس پوچھ گچھ میں جو انہیں ایک خاص گائے ذبح کرنی پڑی۔ خدا تعالیٰ کی ایک عجیب حکمت تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک مرد صالح تھا اور اس کا ایک صغیر سن لڑکا تھا اور اسکے پاس ایک گائے کا بچہ تھا جسے وہ اپنے مرنے سے پہلے جنگل میں لایا اور اللہ تعالیٰ سے مناجات کی۔ خداوندا میں اس گائے کے بچہ کو اپنے بیٹے کے جوان ہونے تک آپ کے پاس امانت رکھتا ہوں پھر اسے چھوڑ کر چلا آیا اور آکر مرگیا۔ وہ بچھیا جنگل میں چرا کرتی جو اسے دیکھتا اس سے دور بھاگ جاتی جب وہ لڑکا جوان ہوا تو بڑا نیک تھا۔ والدہ کا بہت خدمت گذار بنا رات کے تین حصے کرکے ایک میں سوتا۔ دوسرے حصہ میں نماز پڑھتا۔ تیسری میں اپنی والدہ کے سرہانے بیٹھ جاتا اور سویرے جنگل سے لکڑیاں لا کر بازار میں فروخت کرتا اور اس کی قیمت کے تین حصہ کرکے ایک حصہ تو اللہ کی راہ میں دیتا اور ایک حصہ والدہ کو دیتا اور ایک میں آپ کھاتا پیتا ایک دن اس کی والدہ نے کہا بیٹا تیرا باپ تیرے لیے ایک گائے میراث میں چھوڑ گیا ہے اور فلاں جنگل میں سپرد خدا ہے تو جا اور یہ کہہ کر آواز دے کہ اے ابراہیم و اسماعیل کے معبود وہ گائے عنایت فرمادے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ جب تو اسے دیکھے گا تو تجھے معلوم ہوجائے گا کہ اس کی کھال سے گویا سورج کی شعاعیں نکل رہی ہیں اور چونکہ وہ گائے بہت خوبصورت اور زرد رنگ تھی اس لیے لوگ اسے سنہری گائے کہا کرتے تھے وہ جوان اپنی والدہ کے فرمانے کی بموجب اس جنگل میں آیا تو اسے چرتے دیکھ کر جس طرح ماں نے پکارنے کو کہا تھا پکارا وہ گائے بحکم الٰہی دوڑ کر سامنے چلی آئی۔ جوان گردن پکڑ کر کھینچنے لگا۔ گائے بولی اے ماں کے خدمت گزار مجھ پر سوار ہو لے تجھے آرام ملے گا اس نے کہا میری ماں کا یہی حکم ہے کہ گردن پکڑ کر لانا نہ کہ سوار ہو کر۔ گائے بولی اے جوان تو میرے کہنے سے سوار ہوجاتا تو پھر میں ہرگز تیرے قابو میں نہ آتی اور تیرا ماں کی اطاعت کے سبب وہ مرتبہ ہے کہ اگر تو پہاڑ کو حکم دے تو تیرے ساتھ چلنے لگے القصہ وہ گائے لے کر اپنی ماں کے پاس آیا۔ ماں نے کہا کہ بیٹا تو فقیر ہے دن کو لکڑیاں لانے رات کو قیام کرنے کی تجھ پر سخت مشقت و تکلیف ہے اس لیے مناسب یہ ہے کہ اسے فروخت کردے۔ جوان نے قیمت پوچھی کہا تین دینار کو دے دے۔ ( اس وقت گائے کی عام قیمت یہی تھی) ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ جب بیچنے لگے تو مجھ سے پوچھ لینا جوان اپنی مادر مہربان کے فرمانے کے بموجب گائے کو بازار میں لے گیا ادھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت دکھلانے اور اس کو اس کی والدہ کی خدمت میں جانچنے کے لیے ایک فرشتہ بھیجا آتے ہی اس نے قیمت پوچھی جوان نے کہا تین دینار مگر شرط یہ ہے کہ میں اپنی والدہ سے پوچھ لوں فرشہ نے کہا تو مجھ سے چھ دینار لے اور گائے مجھے دے دے ماں سے پوچھنے کی ضرورت نہیں اس نے کہا تو مجھے اگر اس کے برابر سونا بھی تول دے تو میں بلا رضا مندی اپنی والدہ کے نہ دوں گا یہ کہہ کر اپنی ماں کے پاس آیا اور کیفیت بیان کی ماں نے کہا جاؤ چھ ہی دینار کو دے دینا مگر خریدار سے میری رضا مندی کی شرط کرلینا۔ جوان پھر بازار گیا اور اس سے ملا اس نے کہا تو نے اپنی والدہ سے پوچھ لیا کہا ہاں پوچھ لیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ میری رضا مندی کی شرط کرلینا اس خریدار غیبی نے کہا تو اپنی ماں سے نہ پوچھ اور مجھ سے بارہ دینار لے جو ان نے انکار کیا اور اپنی ماں کے پاس آیا اور سارا قصہ بیان کیا ماں نے کہا وہ فرشتہ ہے تیرا امتحان لیتا ہے اب اگر اس سے ملنا ہو تو یہ پوچھنا کہ ہم اسے فروخت کریں یا نہ جب وہ بازار گیا اور اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے بیچنے کی بابت دریافت کیا اس نے کہا اپنی والدہ سے کہنا کہ اسے ابھی فروخت نہ کریں۔ موسیٰ ( علیہ السلام) تم سے ایک مقتول کے معاملہ میں خریدیں گے تم اسے کھال بھر دینار سے کم میں فروخت نہ کرنا چنانچہ انہوں نے اسے فروخت نہ کیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر یہ امر مقدر فرما دیا تھا کہ یہ فلاں گائے ذبح کریں گے اس لیے وہ اس کے لیے وہ اس کے اوصاف حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے پوچھتے رہے اور اللہ تعالیٰ اس گائے کے اوصاف بیان فرماتا رہا۔ حتی کہ اس کے تمام و کمال اوصاف بیان کردیئے یہ سب اس جوان کی نیک نیتی اور اپنی والدہ کی خدمت کا ثمر تھا اور اللہ تعالیٰ ککا اس پر فضل و رحم تھا۔ ​

تفسیرِ مظہری

Comments are closed.