سورۃ بروج میں ​اصحاب الاخدود کا واقعہ

قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ ۝ۙ
کہ خدا کی مار ہے ان خندق (کھودنے) والوں پر (٣)

​اصحاب الاخدود ملعون تھے ‘ خندقوں والے حضرت صہیب راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گزشتہ اقوام میں یمن میں ایک بادشاہ تھا۔ اس کے پاس ایک جادوگر تھا جادوگر جب بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا : میں تو بوڑھا ہوگیا اس لیے کوئی لڑکا میرے پاس بھیج دیجئے کہ میں اس کو سحر سکھا دوں۔ بادشاہ نے ایک لڑکا اس کے پاس جادو سیکھنے کے لیے بھیج دیا۔ لڑکے کے راستہ میں ایک درویش پڑتا تھا۔ لڑکا درویش کے پاس جاتا تھا اور اس کی باتیں سنتا تھا تو اس کی باتیں اس کو پسند آجاتی تھیں۔ چنانچہ جادوگر کے پاس جانے میں درویش کے پاس راستہ میں بیٹھ جانے کی وجہ سے دیر ہوجاتی تھی۔ ساحر اس کو مارتا تھا اور جادوگر کے پاس سے واپسی میں بھی لڑکا اس درویش کے پاس بیٹھ جاتا اور اس کی باتیں سنتا تھا ‘ اس لیے گھر پہنچنے میں بھی دیر ہوجاتی تھی۔ گھر والے بھی اس کو مارتے تھے۔ لڑکے نے درویش سے اس بات کی شکایت کی۔ درویش نے کہا : جب تم جادوگر کے پاس پہنچا کرو تو اس سے کہہ دیا کرو کہ مجھے گھر والوں نے روک لیا تھا اس لیے دیر ہوگئی اور گھر پہنچا کرو تو گھر والوں سے کہہ دیا کرو کہ مجھے جادوگر نے روک لیا تھا ‘ اس لیے دیر ہوگئی۔ غرض لڑکا اسی طرح کرتا رہا (ایک روز) جب رستہ میں جا رہا تھا تو دیکھتا کیا ہے کہ ایک بڑے جانور (درندہ) نے لوگوں کا راستہ روک رکھا ہے ‘ لڑکا کہنے لگا : آج میں آزمائش کروں گا کہ درویش افضل ہے یا جادوگر ؟ یہ سوچ کر پتھر لے کر کہنے لگا : اے خدا ! اگر درویش کا معاملہ جادوگر کے معاملہ سے تجھے زیادہ محبوب ہے تو اس جانور کو قتل کر دے تاکہ لوگ راستہ پر چلنے لگیں۔ یہ دعا کر کے لڑنے نے پتھر مارا اور جانور مرگیا۔ لوگ راستہ چلنے لگے اور لڑکے نے جا کر درویش سے یہ بات کہہ دی۔ درویش نے کہا : بیٹے اب تو مجھ سے افضل ہے ‘ تیرا معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے جیسا تو دیکھ رہا ہے۔ عنقریب تو مصائب میں مبتلا ہوگا۔ مصائب میں مبتلا ہو کر کہیں میرا نام نہ بتا دینا۔
اِس کے بعد وہ لڑکا مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کا اور لوگوں کے امراض کا (کامیاب) علاج کرنے لگا۔ ایک بار بادشاہ کے کسی ہم نشین نے لڑکے کی یہ شہرت سن لی ‘ وہ نابینا ہوگیا تھا۔ لڑکے کے پاس بہت سے تحفے لے کر پہنچا اور کہا : اگر تو مجھے اچھا کر دے گا تو یہ سب تحفے تیرے لیے ہیں۔ لڑکے نے کہا : میں شفا کسی کو نہیں دیتا ‘ اللہ شفا دیتا ہے اگر تو اللہ کو اور اللہ سے دعا کرنے کو مان لے گا تو اللہ تجھے شفا عطا فرما دے گا۔ وہ ایمان لے آیا ‘ اللہ نے اس کو شفا دے دی۔ وہ (بینا ہو کر) بادشاہ کے پاس پہنچا اور (نابینا ہونے سے پہلے) جیسا بیٹھتا تھا جا کر بیٹھ گیا۔ بادشاہ نے پوچھا : یہ بینائی کیسے لوٹ آئی ؟ ہم نشین نے کہا : میرے مالک نے لوٹا دی۔ بادشاہ نے کہا : کیا تیرا کوئی مالک میرے علاوہ اور بھی ہے ؟ ہم نشین نے کہا : وہ میرا بھی رب ہے اور تیرا بھی۔ بادشاہ نے اس کو قید کردیا اور برابر دکھ دیتا رہا۔ یہاں تک کہ اس نے لڑکے کا پتہ بتلا دیا۔ لڑکے کو لایا گیا۔ بادشاہ نے اس سے کہا : میرے بیٹے ! تیرے سحر کی حالت اب اس حد تک پہنچ گئی کہ مادر زاد نابینا اور کوڑھی کو اچھا کرنے لگا۔ لڑکے نے کہا : میں کسی کو شفا نہیں دیتا ‘ اللہ ہی شفا دیتا ہے۔ بادشاہ نے اس کو بھی گرفتار کرلیا اور اتنا دکھ دیا کہ بالآخر اس نے درویش کا پتہ بتادیا۔ درویش کو لایا گیا اور اس سے کہا گیا : اپنے مذہب سے باز آ۔ درویش نے انکار کردیا۔ بادشاہ نے اس کے وسط سر پر آرہ رکھوا کر دو ٹکڑا کرا دیا۔ پھر لڑکے کو بلوایا گیا اور کہا : اب بھی اپنے دین سے باز آ جا۔ لڑکے نے انکار کیا۔ بادشاہ نے اپنے چند آدمیوں کو بلوا کر حکم دیا اس لڑکے کو فلاں فلاں پہاڑ کے اوپر لے جاؤ اور چوٹی پر پہنچ کر اگر یہ اپنا دین ترک کر دے تو خیر ! ورنہ اس کو نیچے پھینک دو ۔ لوگ اس کو پہاڑ پر لے گئے۔ لڑکے نے دعا کی : الٰہی ! مجھے ان کے شر سے بچا ‘ جس طرح تو چاہے۔ یک دم پہاڑ میں زلزلہ آگیا ‘ سب گرگئے۔ لڑکا پھر چلتا چلتا بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ نے پوچھا : تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا ؟ لڑکے نے کہا : اللہ نے مجھے ان سے بچا لیا۔
بادشاہ نے پھر لڑکے کو چند آدمیوں کے حوالے کر کے حکم دیا اس کو لے جا کر کشتی میں بٹھا کر سمندر میں لے جاؤ۔ اگر یہ اپنے مذہب سے توبہ کرلے تو خیر ! ورنہ سمندر میں پھینک دو ۔
لوگ لڑکے کو لے گئے۔ لڑکے نے دعا کی : الٰہی ! جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچا لے (طوفان کی وجہ سے) کشتی الٹ گئی ‘ سب ڈوب گئے اور لڑکا چلتا چلتا پھر بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ نے ساتھ والوں کی کیفیت دریافت کی۔ لڑکے نے کہا : اللہ نے مجھے ان سے بچا لیا (ان کو ڈبو دیا) پھر کہنے لگا : جب تک میرے کہنے کے موافق تو عمل نہیں کرے گا مجھ کو قتل نہیں کرسکتا۔ بادشاہ نے پوچھا : وہ کیا بات ہے ؟ لڑکے نے کہا : ایک میدان میں لوگوں کو جمع کرو اور مجھے کسی لکڑی کے ستون سے باندھ کر لٹکا دو پھر میری ترکش سے ایک تیر لے کر کمان کے چلے میں رکھ کر بسم اللہ ربّ الغلام کہہ کر تیر مجھ پر چھوڑ دو اگر ایسا کرو گے تو مجھے قتل کرسکو گے۔ حسب مشورہ بادشاہ نے لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا۔ لڑکے کو لکڑی کے تنہ سے باندھ کر لٹکا دیا اور اس کی ترکش سے ایک تیر لے کر کمان کے چلہ میں رکھ کر بسم اللہ ربّ الغلام کہہ کر مارا۔ فوراً لڑکے کی کنپٹی میں پیوست ہوگیا اور لڑکا مرگیا۔ یہ دیکھ کر لوگوں نے تین بار کہا : ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے۔ کچھ آدمیوں نے بادشاہ سے جا کر کہا : دیکھئے ! جس بات کا آپ کو اندیشہ تھا وہی واقع ہوگئی۔ سب لوگ لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے۔
بادشاہ نے کوچوں کے دہانوں پر خندق کھودنے کا حکم دیا۔ خندقیں کھود دی گئیں تو ان میں لکڑیاں بھر کر آگ لگا دی اور حکم دے دیا کہ جو شخص اپنے مذہب سے نہ پھرے ‘ اس کو خندق میں ڈال دو ۔ لوگ حکم کی تعمیل کرنے لگے۔ آخر ایک عورت بھی آئی جس کے پاس چھوٹا بچہ تھا۔ عورت خندق میں گرنے سے جھجکی لیکن بچہ نے کہا : اماں ثابت قدم رہ ! بلاشبہ تو حق پر ہے۔ (صحیح مسلم)
عطاء نے حضرت ابن عباس کی روایت سے ایسا ہی قصہ نقل کیا ہے جس میں حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بھی بیان کیا کہ نجران (علاقہ یمن) میں حمیری بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا ‘ جس کا نام یوسف ذونواس بن شرحبیل تھا۔ یہ واقعہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت مبارک سے ستّر سال پہلے کا ہے ‘ اس زمانہ میں کوئی نبی نہ تھا اور اس لڑکے کا نام عبداللہ بن تامر تھا۔ محمد بن اسحاق نے وہب بن منبہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ذونواس نے بارہ ہزار آدمی جلا دیئے پھر ارباط (حبشی) نے یمن فتح کرلیا اور ذونواس بھاگ کر مع گھوڑے کے سمندر میں گھس گیا اور ڈوب گیا۔ کلبی (رض) نے بیان کیا کہ ذونواس نے عبداللہ بن تامر (رض) کو قتل کیا تھا۔

(مظہری)

Comments are closed.