شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کے صبر کا واقعہ

شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ ایک بزرگ تھے۔ صاحبِ کرامت تھے۔ ایک ہزار میل سے ایک شخص ان سے مرید ہونے ایا۔ شیخ جنگل میں لکڑیاں لینے گئے تھے۔ اس نے گھر کے باہر سے ان کی اہلیہ سے پوچھا کہ شیخ کہاں ہیں؟ اندر سے آواز آئی کہ ارے! وہ شیخ کہاں ہیں میخ ہیں۔ وہ بالکل بزرگ نہیں ہیں۔ خواہ مخواہ تم لوگ چکر میں پھنسے ہوئے ہو۔ رات دن تو میں اس کے ساتھ رہتی ہوں، میں خوب جانتی ہوں، تم کیا جانو۔ اب وہ بے چارہ تو رونے لگا کہ یااللہ! میں ایک ہزار میل سے ان کو بزرگ سمجھ کر آیا ہوں اور یہ عورت کیا کہہ رہی ہے۔ محلہ والوں نے کہا کہ یہ عورت بہت بدتمیز ہے۔ یہ ان کا ظرف ہے جو اس کو برداشت کررہے ہیں۔ جائو! جنگل میں جاکر شیخ کو تلاس کرو۔ جنگل گئے تو دیکھا کہ شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ شیر پر بیٹھے ہوئے آرہے ہیں اور لکڑیوں کا گٹھڑ بھی اس کی پیٹھ پر لادے ہوئے ہیں اور سانپ کا کوڑا ہاتھ میں ہے۔

اس شخص کو دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ شاید تم میرے گھر سے ہوکر آرہے ہو جو تمہارا چہرہ اُترا ہوا ہے۔ بیوی سے کچھ شکایت سنی ہوگی۔ اس کا خیال مت کرو۔ میں جو اس سے نباہ کررہا ہوں اور اس کی بدزبانی اور کڑوی باتوں کو برداشت کررہا ہوں۔ اسی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ کرامت دی ہے کہ یہ شیر نر میرے قبضہ میں ہے اور میں اس سے بے گاری کا کام لے رہا ہوں۔ روزانہ اس پر لکڑی لادھ کر لے جاتا ہوں اور یہ سانپ کا کوڑا اللہ نے مجھے دیا ہے۔ جب شیر نہیں چلتا تو سانپ کے کوڑے سے اس کو مارتا ہوں۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے مثنوی میں اس قصہ کو بیان فرمایا اور اس موقع پر ایک شعر لکھا ہے جس کو مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ پڑھا کرتے تھے اور مست ہوکر پڑھتے تھے ؎

گر نہ صبرم می کشیدے بارزن
اگر میرا صبر اس کڑوی زبان والی عورت کو برداشت نہ کرتا، اس عورت کی تلخ مزاجیوں کے بوجھ کو میرا صبر نہ اُٹھاتا۔
کے کشیدے شیر نر بے گار من
تو بھلا یہ شرنر میری بے گاری کرتا، میری مزدوری کرتا۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اسی کے صدقہ میں دیا ہے۔

دوستو! میں یہی بات عرض کررہا ہوں کہ بیویوں کے معاملہ میں اچھے اخلاق سے پیش آئیے۔ ان کی کڑوی زبان کو برداشت کرلیجئے۔ نہ برداشت ہو تو تھوڑی دیر کے لیے گھر سے باہر چلے جائیے۔ سعد شیرازی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر بیوی کڑوی بات کررہی ہو تو ایک گلاب جامن اس کے منہ میں ڈال دو تاکہ گالی بھی میٹھی میٹھی نکلے۔ عام لوگ ڈنڈے سے اس کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں حالانکہ بیویاں ڈنڈوں سے ٹھیک نہیں ہوتی ہیں۔

دیکھئے! حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ بخاری شریف کی حدیث ہے:
’’اَلْمَرْأَۃُ کَالضِّلْعِ‘‘
عورت مثل ٹیڑھی پسلی کے ہے، کیونکہ ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے، لہٰذا اس میں کچھ نہ کچھ ٹیڑھا پن تو رہے گا۔

’’اِنْ اَقَمْتَہَا کَسَرْتَہَا‘‘
اگر ان کو سیدھا کروگے تو توڑ دو گے، طلاق تک نوبت پہنچ جائے گی۔

’’وَاِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِہَا اسْتَمْتَعْتَ بِہَا وَفِیْہَا عِوَجٌ‘‘
اور تم اس سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہو تو فائدہ اُٹھالو اور اس میں ٹیڑھا پن رہے گا جس طرح ٹیڑھی پسلی سے فائدہ اُٹھارہے ہو یا نہیں یا کبھی ڈاکٹر کے پاس گئے کہ میری پسلی کو سیدھا کردو۔ اسی طرح عورت کے ٹیڑھے پن کے ساتھ سے فائدہ اُٹھاسکتے ہو۔ اس سے راحت بھی مل جائے گی، اولاد بھی اس سے ہوجائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی ولی اللہ اس سے پیدا ہوجائے جو قیامت کے دن آپ کی مغفرت کا ذریعہ ہو۔

’’وَعَسٰی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ۔‘‘ (پارہ: ۲، سورہ بقرہ)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بعض چیز کو تم ناپسند کرتے ہو اور اس میں تمہارے لیے خیر ہوتی ہے۔

Full Book Link: http://books.hazratmeersahib.com/book/6/huquq-un-nisa.html

حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ
کتاب: حقوق النساء .مواعظِ حسنہ:

signature.gif?u=380741&e=29155696&v=bd4634943375d884bfbac8b98c214d00bc51880b9693c5c4b11c4a711c7bc295

Comments are closed.