سونے سے پہلے نمازِ تہجد کی شرعی دلیل

عشاء کے چار فرض اور دو سنت پڑھ کر وتر سے پہلے چند نفل پڑھنے سے کیا ہم قائم اللیل ہوجائیں گے اور قیامت کے دن کیا ہم کو تہجد گذاروں کا درجہ مل جائے گا؟ علماء کو حق ہے کہ اس کا ثبوت اختر سے مانگ لیں۔ لہٰذا اب میں اس کا ثبوت یعنی شرعی دلیل یپش کرتا ہوں۔

دلیل نمبر (۱) از امداد الفتاویٰ: حکیم الامت مجدد الملت مولانا شرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی امداد الفتاویٰ میں لکھ اہے کہ جو عشاء کے بعد چند رکعات نفل بہ نیت تہجد پڑھ لے وہ بھی قیامت کے دن تہجد گذاروں میں اُٹھایا جائے گا۔ یہ تو امداد الفتاویٰ کی دلیل ہوگئی۔
دلیل نمبر (۲) از شامی: اب میں علامہ شامی کی کتاب جو فقہ کی سب سے بڑی کتاب مانی جاتی ہے اس کی جلد نمبر ایک سے حوالہ دیتا ہوں۔ علامہ شامی ابن عابدین لکھتے ہیں کہ جو شخص عشاء کی نماز کے بعد سونے سے پہلے دو رکعت نفل پڑھ لے گا، اس کی بھی سنتِ تہجد ادا ہوجائے گی۔ اب دلیل کے لیے عربی عبارت پیش کرتا ہوں تاکہ علماء حضرات کو تشنگی باقی نہ رہے۔
علامہ شامی سب سے پہلے حدیث نقل کرتے ہیں کیونکہ فقہ تابع ہے حدیث کے۔ جس فقہ کا سہارا حدیث پر نہ ہو وہ معتبر نہیں۔
یہاں ایک بات یاد آگئی۔ قرآن پاک کی آیت ہے: ’’قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا‘‘ تمام مفسرین کہتے ہیں کہ رَبُّنَا للّٰہُ میں رَبّنَا خبر ہے اور اللہ مسندالیہ ہے لیکن رَبّنَا کو اللہ تعالیٰ نے مقدم اس لیے کیا کہ حصر کے معنی پید اہوجائیں۔ تقدیم ماحقہ التاخیر یفید الحصر تاکہ تم یہ کہو کہ ہمارا پالنے والا سوائے خدا کے کوئی نہیں ہے۔ اگر رَبّنَا مقدم نہ ہوتا تو معنی حصر کے نہ پیدا ہوتے۔ یہ عربی کا قاعدہ کلیہ ہے۔ اب یہاں ایک نحوی اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہاں ہم اللہ کو خبر مان لیں اور رَبّنَا کو مسند اور مبتدا مان لیں تو کیا حرج ہے؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے میرے قلب کو یہ عطا فرمایا کہ مسندالیہ کو قوی ہونا چاہیے کیونکہ سہارا لیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی قوی نہیں ہے، اس لیے اللہ کا نام ہوتے ہوئے کسی غیراللہ کو مسندالیہ بنانا صحیح نہیں۔ یہ بات تو درمیان میں آگئی۔
صلوٰۃِ تہجد عشاء کی دلیل بالحدیث:
علامہ شامی جس حدیث سے اپنا مسئلہ یپش کررہے ہیں۔ اس کو نقل کرتے ہیں۔ وَمَا کَانَ بَعْدَ صَلٰوۃِ الْعِشَائِ فَہُوَ مِنَ اللَّیْلِ (شامی: ج ۱، ص ۵۰۶ بحوالہ طبرانی) ہر وہ نماز جو نمازِ عشاء کے بعد پڑھی جائے گی، قیام دلیل میں داخل ہے۔ اب مُلّا علی قاری کی وہ عبارت کہ لَیْسَ مِنَ الْکَامِلِیْنَ مَنْ لَّا یَقُوْمُ اللَّیْلَ (مرقاۃ: ج ۳، ص ۱۴۸) جو رات کی نماز یعنی تہجد نہیں پڑھتا وہ کامل ہو ہی نہیں سکتا تو لہٰذا اب آپ آسانی سے کامل ہوسکتے ہیں کہ سونے سے پہلے رات ہی کو تہجد پڑھ لیں۔
اس حدیثِ پاک کی روشنی میں شامی کا فیصلہ یہ ہے کہ فَاِنَّ سُنَّۃَ التَّہَجُّدِ تَحْصُلُ بِالتَّنَفُّلِ بَعْدَ صَلٰوۃِ الْعِشَائِ قَبْلَ النَّوْمِ اس شخص کی سنتِ تہجد ادا ہوجائے گی جو عشاء کی نماز کے بعد سونے سے پہلے چند رکعات نفل پڑھ لے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو لوگ آدھی رات میں اُٹھ کر پڑھ رہے ہیں وہ پڑھنا چھوڑ دیں۔ جو لوگ بریانی کھارہے ہیں وہ کھاتے رہیں یہ تو ان لوگوں کے لیے ہے جن کو بوجہ ضعف یا سستی کے بریانی نہیں ملتی۔ وہ عشاء کے بعد کم از کم گوشت روٹی کھالیں۔ پھر اگر آخر رات میں آنکھ کھل جائے تو اس وقت دوبارہ پڑھ لیں تو کس نے منع کیا ہے۔

کتاب: عظمت حفاظ کرام .مواعظِ حسنہ:۲۷
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

Comments are closed.