ماخوذ: حصن حصین
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ9 ، جلد: 99 ، ذی قعدہ 1436 ہجری مطابق ستمبر 2015ء
از: مفتی ابوالخیر عارف محمود، مسوٴل دارالتصنیف مدرسہ فاروقیہ گلگت
اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے ،ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کوبیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی پاکیزہ نسبت عطا کی ہے؛ غرض ر شتے بناکر اللہ تعالی نے ان کے حقوق مقر ر فرمادیے ہیں ، ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کر نا ضروری ہے ، لیکن والد ین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں اپنی بندگی اورا طا عت کے فوراً بعد ذکر فرمایا ، یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے ۔
والدین سے حسن سلوک کا حکم
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: ﴿وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْما وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً رَّبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوسِکُمْ إِن تَکُونُواْ صَالِحِیْنَ فَإِنَّہُ کَانَ لِلأَوَّابِیْنَ غَفُوراً﴾․(۱)
ترجمہ : اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سواہ کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آو ، اگر وہ یعنی ماں باپ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں ، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو ) ان سے کبھی ”ہوں “ بھی مت کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے با ت کر نا ، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا :اے ہمارے پروردگار ! تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے(صرف ظاہر داری نہیں، دل سے ان کا احترام کرنا ) تمھارا رب تمھارے دل کی بات خوب جا نتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں کثرت سے معاف کرنے والا ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ جلَّ جلالُہ نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فر ما یا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہر گز مت کرنا ، اس کے بعد فر ما یا کہ اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ والدین نہ صرف میرے وجود کا سبب ہیں؛ بلکہ آج میں جو کچھ بھی ہوں، انھیں کی برکت سے ہوں ، والدین ہی ہیں جو اولاد کی خاطر نہ صرف ہر طرح کی تکلیف دکھ اور مشقت کو برداشت کر تے ہیں؛بلکہ بسا اوقات اپنا آرام و راحت اپنی خوشی و خواہش کو بھی اولاد کی خاطر قربان کردیتے ہیں ۔
ماں کا مجاہدہ: سب سے زیا دہ محنت و مشقت اور تکلیف ماں برداشت کر تی ہے، سورة احقاف میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ إِحْسَاناً حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہاً وَوَضَعَتْہُ کُرْہاً﴾(۲)ترجمہ : اس ماں نے تکلیف جھیل کر اسے پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنا ۔حمل کے نوماہ کی تکلیف اور اس سے بڑھ کر وضع حمل کی تکلیف، یہ سب ماں برداشت کر تی ہے ۔
جب بچہ پیدا ہو تا ہے تو اب اس کی پرورش کے لیے باپ محنت و مشقت برداشت کر تا ہے ، سردی ہو یا گر می ،صحت ہو یا بیما ری، وہ اپنی اولاد کی خاطر کسبِ معا ش کی صعوبتوں کو برداشت کر تا ہے اور ان کے لیے کما کر لاتا ہے، ان کے اوپر خرچ کرتا ہے ، ماں گھر کے اندر بچے کی پرورش کرتی ہے ،اس کو دودھ پلاتی ہے، اس کو گرمی و سردی سے بچانے کی خاطر خود گرمی و سردی برداشت کرتی ہے ،بچہ بیما ر ہوتا ہے تو ماں باپ بے چین ہو جا تے ہیں ، ان کی نیندیں حرام ہو جاتیں ہیں، اس کے علاج و معالجہ کی خا طر ڈاکٹروں کے چکر لگاتے ہیں ۔ غرض والدین اپنی راحت و آرام کو بچوں کی خاطر قربان کر تے ہیں؛اس لیے اللہ تعالی نے جہاں اپنا شکر ادا کر نے کا حکم دیا ہے وہیں والدین کی شکرگزاری کا بھی حکم ارشاد فر مایا ہے ،سو رة لقمان میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:﴿أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْْکَ، إِلَیَّ الْمَصِیْرُ﴾(۳) ترجمہ :کہ میرا شکر یہ ادا کرو اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو، میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی نے پو چھا کہ میں نے خراسان سے اپنی والدہ کو اپنے کندھے پر اٹھا یا اور بیت اللہ لایا اور اسی طرح کندھے پر اٹھا کر حج کے منا سک ادا کروائے ،کیا میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا ؟تو حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے فرما یا: ”نہیں ہر گز نہیں ، یہ سب تو ماں کے اس ایک چکر کے برابر بھی نہیں جو اس نے تجھے پیٹ میں رکھ کر لگا یا تھا ۔
اللہ تعالی نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیاہے:﴿وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَانًا﴾ یعنی ان کے ساتھ انتہائی تواضع و انکساری اور ا کرام و احترام کے ساتھ پیش آئے، بے ادبی نہ کرے ، تکبر نہ کرے ، ہر حال میں ان کی اطاعت کرے ، إلّا یہ کی وہ اللہ کی نا فرمانی کا حکم دیں تو پھر ان کی اطا عت جا ئز نہیں۔سورئہ عنکبوت میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:﴿وَوَصَّیْْنَا الإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حُسْناً وَإِن جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا﴾(۴) تر جمہ : ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کر نے کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتادیا ہے کہ اگر وہ تجھ پر اس با ت کا ذور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرے شریک ٹھہرائے جس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل تیرے پاس نہ ہو تو ان کا کہنا مت ما ننا ۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا فرمان:حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کسی نے دریا فت کیا کہ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کس طرح کیا جائے ؟ تو انھوں نے فرما یا: تو ان پر اپنا مال خرچ کر ، اور وہ تجھے جو حکم دیں اس کی تعمیل کر ، ہاں اگر گناہ کا حکم دیں تو مت مان ۔(۵)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فر ما یا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان کے سامنے اپنے کپڑے بھی مت جھا ڑو، کہیں کپڑوں کا غبا ر اور دھول ان کو لگ نہ جا ئے۔
بڑھاپے میں حسنِ سلوک کا خصوصی حکم: اللہ تعالی نے خاص طور سے والدین کے پڑھاپے کو ذکر فر ما کر ارشاد فر ما یا کہ اگر ان میں کوئی ایک، یا دونوں تیری ز ند گی میں پڑھا پے کو پہنچ جا ئیں تو ان کو ”اف “بھی مت کہنا اور نہ ان سے جھڑک کر با ت کر نا ۔ حضرت تھا نوی رحمہ اللہ نے بیا ن القرآن میں ”اف “ کا تر جمہ ”ہوں “ سے کیا ہے کہ اگر ان کی کوئی بات نا گوار گزرے تو ان کو جواب میں ”ہوں “بھی مت کہنا ۔ اللہ رب العزت نے بڑھا پے کی حالت کو خا ص طور سے اس لیے ذکر فر ما یا کہ والدین کی جوا نی میں تو اولاد کو نہ” ہوں“ کہنے کی ہمت ہوتی اور نہ ہی جھڑکنے کی، جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہو تا ہے؛ البتہ بڑھاپے میں والدین جب ضعیف ہوجاتے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیا دہ اندیشہ رہتا ہے ۔،پھر بڑھا پے میں عا م طور سے ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑا پن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ معمولی باتوں پر بھی والدین اولاد پر غصہ کر تے ہیں، تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کر کے حسنِ سلوک کا مظاہرہ کر تے ہیں، یا نا ک بھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں، اس موقع کے لیے اللہ تعالی نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر با ت کر نا تو دور کی با ت ہے، ان کو” اف“ بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناگواری کا اظہا ر بھی مت کر نا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان:حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فر ما یا کہ اگر والدین کی بے ادبی میں ” اف “ سے کم درجہ ہوتا تو بھی اللہ جلَّ شانہُ اسے بھی حرام فرمادیتے۔ (۶)
حضرت مجاہد رحمہ اللہ کا قول: حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر والدین بوڑھے ہو جائیں اور تمھیں ان کا پیشا ب دھو نا پڑجا ئے تو بھی” اف“ مت کہنا کہ وہ پچپن میں تمہارا پیشا ب پاخانہ دھوتے تھے۔(۷)
والدین کا ادب: حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، وہ فر ما تی ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے جواب میں کہا کہ یہ میرا باپ ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا: لا تَمْشِ أمامَہ، وَلَاتَقْعُدْ قَبْلَہ، وَلاَتَدْعُہْ بِاسْمِہ، وَلَاتَسْتَبَّ لَہ․(۸) یعنی ان کے آگے مت چلنا ، مجلس میں ان سے پہلے مت بیٹھنا ، ان کا نام لے کر مت پکارنا، ان کو گا لی مت دینا ۔
بڑھا پے میں جب والدین کی کوئی با ت نا گوار گزے تو ان سے کیسے گفتگوکی جا ئے، اس کے بارے میں اللہ تعالی نے فر ما یا: ﴿ وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْما﴾(۹) یعنی: ان سے خوب ادب سے با ت کر نا ، اچھی بات کر نا ، لب ولہجہ میں نر می اور الفا ظ میں تو قیر و تکریم کا خیا ل رکھنا ۔ قول کریم کے بارے میں حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فر ما یا: خطا ر کار اور زر خرید غلام سخت مزاج اور ترش روی آقا سے جس طرح با ت کر تا ہے، اس طرح با ت کر نا قول کریم ہے(۱۰)۔
آگے فر ما یا: ﴿ وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ﴾ یعنی ان کے سامنے شفقت کے ساتھ انکساری سے جھکتے رہنا ۔ حضرت عروہ رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ اللہ نے قران میں والدین کے سامنے جھکے رہنے کا حکم دیا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ تو انھوں نے فر ما یا کہ اگر وہ کوئی با ت تیری نا گواری کی کہیں تو ترچھی نگا ہ سے بھی ان کو مت دیکھ کہ آدمی کی نا گواری اول اس کی آنکھ سے پہچانی جا تی ہے۔(۱۱) اور فر ما یا کہ ان کے سامنے ایسی روش اختیار کر کہ تیری وجہ سے ان کی دلی رغبت پوری کر نے میں فرق نہ آئے اور جس چیز کو والدین پسند کریں تو وہ ان کی خدمت میں پیش کر نے میں کنجوسی مت کرنا۔ (بر الوالدین، ص: ۴۰)
حضرت مفتی محمد شفیع صا حب رحمہ اللہ نے معارف القر آن میں لکھا ہے کہ والدین کی خدمت و اطاعت کا حکم کسی زمانے و عمر کے ساتھ مقید نہیں ، بہرحال ہر عمر میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا واجب ہے؛کیونکہ والدین کی خدمت اور ان کی رضا مندی میں اللہ تعالی کی رضامندی ہے اور ان کی ناراضگی میں اللہ کی نا راضگی ہے۔ (۱۲)
اللہ تعالی کی رضا و ناراضگی: حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ فر ما تے کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا :ر ضا اللّٰہ مع رضا الوالدین و سخطُ اللّٰٰہِ مع سخطِ الوالدین․(۱۳) یعنی اللہ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔
جنت یا جہنم کے دروازے : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : مَنْ أَصْبَحَ مُطِیْعًا فِی وَالِدَیْہِ أَصْبَحَ لَہ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ مِنَ الْجَنَّةِ، وَانْ کَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا، وَمَنْ أمسیٰ عَاصِیًا للّٰہ فی وَالِدَیْہِ أَصْبَحَ لَہ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ مِنَ النَّارِ، وَانْ کَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا، قال الرجلُ: وانْ ظَلَمَاہُ؟ قال: وانْ ظَلَمَاہُ، وان ظَلَمَاہُ، وان ظلماہ․(۱۴)
یعنی جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں اللہ کا فر ما نبر دار رہا تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہو تے ہیں اوراگر والدین میں سے ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو جنت کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے ۔اور جس نے اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ کی نا فر ما نی کی، اس کے بتائے ہوے احکا ما ت کے مطا بق حسنِ سلوک نہ کیا تو اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھلے رہتے ہیں اوراگر والدین میں ایک زندہ ہواوراس کے ساتھ بد سلوکی کر ے تو جہنم کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔کسی نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی! اگر چہ ماں باپ نے اس پر ظلم کیا ہو ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فر ما یا: اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو ۔
حضرت رفاعہ بن ایاس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایاس بن معاویہ رحمہ اللہ کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ رونے لگے، کسی نے پوچھا کہ کیوں روتے ہو؟ تو انھوں نے فرمایا : کَانَ لِيْ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ الی الجنَّةِ وَأُغْلِقَ أحدُہما یعنی میرے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے تھے، اب ایک (والدہ کی وفات پر) بند ہوگیا ہے؛ اس لیے رو رہا ہوں۔ کس قدر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے والدین زندہ ہیں اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرتے ہیں اور ان کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ ََ
والدین کے لیے دعا کا اہتمام کرنا: اللہ تعالی نے جہاں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے وہیں پر ان کے لیے دعا کرنے کی تعلیم بھی ارشاد فرمائی ہے؛ چناں چہ ارشاد خداوندی ہے: ﴿ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً﴾(۱۵) یعنی: اے میرے پروردگار! تو میرے والدین پر رحم فر ماجیسا کہ انھوں نے بچپن میں (رحمت و شفقت کے ساتھ) میری پرورش کی ہے۔ہر نماز کے بعدوالدین کے لیے دعا کرنے کا معمول بنالیں، دو بہت آسان دعائیں جن کی تعلیم خود اللہ جلَّ شانہُ نے قرآن کریم میں دی ہے، ایک ماقبل والی اور دوسری یہ:﴿ رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسَابُ﴾ (۱۶) یعنی اے میرے پروردگار ! روزحساب تو میری، میرے والدین کی اور تمام ایمان والوں کی بخشش فرما۔
حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے فرمایا : مَنْ صَلّی الصَّلَوَاتِ الخَمْسَ فَقَدْ شَکَرَ اللّٰہَ، وَمَنْ دَعَا لِلْوَالِدَیْنِ فِيْ أَدْبَارِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ فَقَد شَکَرَ الْوَالِدَیْنِ․(۱۷) یعنی جس نے پانچ وقت کی نماز کی ادائیگی کا اہتمام کیا تو گو یا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور جس نے پانچ نمازوں کے بعد والدین کے لیے دعا ئے خیر کی تو گویا اس نے والدین کا شکر ادا کیا۔ اولاد کی دعا سے والدین کے درجات بلند ہوتے ہیں، حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام اللہ کی ملاقات کے لیے گئے تو وہا ں عرش کے سائے تلے ایک شخص کو دیکھا اور اس کی حالت اتنی اچھی تھی کہ خود موسی علیہ السلام کو اس آدمی پر رشک آیا تو موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا کہ اے اللہ ! تیرا یہ بندہ کون ہے ؟ اللہ تعالی نے فرما یا : کَانَ لاَ یَحْسُدُ النَّاسَ عَلٰی مَا آتاہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ، وَکَانَ لاَ یَعُقُّ وَالِدَیْہِ، وَلاَ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَةِ․(۱۸) یعنی یہ شخص تین کا م کر تا تھا ( ۱ ) جو چیزیں میں نے اپنے فضل وکرم سے لوگوں کو نعمتیں عطا کی ہیں ان پر حسد نہیں کر تا تھا (۲)والدین کی نا فر ما نی نہیں کر تا تھا (۳) چغل خوری نہیں کر تا تھا ۔
رزق میں اضافہ: والدین کے ساتھ حسن سلوک رزق و عمر میں اضا فہ کا سبب ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یعنی جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی عمر دراز کردے اور رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے(۱۹)۔ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : بَرُّوْا آبَاءَ کُمْ تَبُرَّکُمْ أَبْنَاوٴُکُمْ․(۲۰) یعنی تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو تمہا ری اولاد تمھارے ساتھ حسن سلوک کرے گی۔
موت کے بعد والدین سے حسن سلوک کا طریقہ: والدین یا ان میں کوئی ایک فوت ہوجائیں اور زندگی میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک میں کوتاہی ہوئی ہو تو اس کے تدارک کا طریقہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا۔حضرت ابواسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم حضور اقدس صلی اللہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آیا اور عرض کیا کہ ماں باپ کی وفات کے بعد بھی کوئی چیز ایسی ہے جس کے ذریعے ان سے حسن سلوک کروں؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا: نَعَمْ، اَلصَّلاةُ عَلَیْہِمَا، وَالاِسْتِغْفَارُ لَہُمَا، وَانْفَاذُ عَہْدِہِمَا مِنْ بَعْدِہِمَا، وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِیْ لاَ تُوْصَلُ الاّ بِہِمَا، وَاکْرَامُ صَدِیْقِہِمَا․(۲۱) ہاں! ان کے لیے رحمت کی دعا کر نا ، ان کے لیے مغفرت کی دعا کر نا، ان کے بعد ان کی وصیت کو نا فذکر نا اور اس صلہ رحمی کو نبھا نا جو صرف ماں باپ کے تعلق کی وجہ سے ہو، ان کے دوستوں کا اکرام کر نا ۔ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ جب مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ان سے ملنے کے لیے آئے اور پوچھا تمہیں معلوم ہے کہ میں تمھارے پاس کیوں آیاہوں ؟ انھوں نے کہا کہ نہیں، تو فرمایا: میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَصِلَ أبَاہُ فِی قَبْرِہ فَلْیَصِلْ اخْوَانَ أبِیْہِ بَعْدَہ․(۲۲) یعنی جو یہ چاہتا ہے کہ اپنے باپ کے ساتھ قبر میں صلہ رحمی کرے تو اس کو چاہیے کہ ان کے بعد ان کے دوستو ں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، میرے والد عمر رضی اللہ عنہ اور تمھارے والد کے درمیان دوستی تھی میں نے چاہا کہ میں ا سے نبھاوں (اس لیے تم سے ملنے آیا ہوں)۔
آخر میں گزارش کہ جن کے والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک باحیات ہوں تو ان کو اللہ کی بہت بڑی نعمت سمجھ کر ان کی فرمانبرداری کرے، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، جتنا ہوسکے ان کی خدمت کرے اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرے اور جن کے والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہوں توان کے ساتھ اب حسن سلوک یہ ہے کہ ان کی وصیت کو نافذ کرے، ان کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کرے، شرعی حصص کے مطابق میراث کو تقسیم کرے، خود دینی تعلیم حاصل کرے اور اس پر عمل کرے،ان کے لیے دعا کرے، اللہ سے ان کے لیے رحمت و مغفرت طلب کرے ،ان کی طرف سے صدقہ کرے ، ان کی طرف سے نفلی حج و عمرہ کرے ،کہیں کنواں کھدوائے یا لوگوں کے پینے کے پانی کا انتظام کرے، دینی کتابیں خرید کر وقف کرے،مسجد بنوائے، مدرسہ بنوائے یا دینی علم حاصل کرنے والے مہمانانِ رسول کی ضروریات کو پورا کرنے میں تعاون کرے،والدین کے قریبی رشتہ داروں اور تعلق والوں کے ساتھ حسن سلوک کرے، نفلی اعمال کر کے ان کے لیے ایصالِ ثواب کرے، اپنے علاقہ، ملک اور دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کی حالتِ زار کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مال کے ساتھ ان کی خبرگیری کرے، اللہ تعالیٰ تمام اہلِ ایمان کو اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی توفیق سے نوازے، آمین، ثم آمین۔
حوالہ جات
(۱) الاسراء : ۲۳۔۲۵
(۲) الاحقاف:۱۵
(۳) لقمان:۴۱
(۴) العنکبوت :۸
(۵) الدالمنثور: ۵/ ۲۲۴
(۶) الدالمنثور: ۵/ ۲۲۴
(۷) حوالہٴ سابق
(۸) معجم الأوسط، للطبراني:۴/۲۶۷، رقم الحدیث: ۴۱۶۹
(۹) الاسراء:۲۳
(۱۰) الدر المنثور: ۵/۲۲۵
(۱۱) الدر المنثور: ۵/۲۲۵
(۱۲) معارف القر آن:۵/۴۶۶
(۱۳) شعب الإیمان: ۶/۱۷۷، رقم الحدیث: ۷۸۲۹،۷۸۳۰
(۱۴) شعب الإیمان: ۶/۲۰۶، رقم الحدیث: ۷۹۱۶
(۱۵) الاسراء :۲۴
(۱۶) الإبراہیم: ۴۱
(۱۷) تفسیر الخازن المسمی: لباب التأویل في معانی التنزیل، سورة لقمان: ۵/۲۱۶
(۱۸)مکارم الأخلاق لابن أبی الدنیا: ۱/۸۶، رقم الحدیث: ۲۵۷
(۱۹) شعب الإیمان: ۶/۱۸۵، رقم الحدیث: ۷۸۵۵
(۲۰)المعجم الأوسط:۱/۲۹۹، رقم الحدیث: ۱۰۰۲
(۲۱) سنن أبي داود: ۵۰۰، رقم الحدیث: ۵۱۴۴
(۲۲)صحیح ابن حبان:۲/۱۷۵، رقم الحدیث:۴۳۲
Sayyiduna Buraidah Radhiyallahu Anhu reports, “I heard that Mu‘aaz bin Jabal Radhiyallahu Anhu had captured a Jinn during the lifetime of Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam. I thus went to Mu‘aaz Radhiyallahu Anhu and asked him regarding this incident. Mu‘aaz Radhiyallahu Anhu narrated the following to me:
“Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam had entrusted the dates of sadaqah to me for safekeeping. Thus, I placed these dates in one of my rooms. However, I would daily find that the dates had decreased. So I went to Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam and complained to him of the dates decreasing, to which Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam said, ‘It is the work of a Shaitaan. Wait for him in ambush.’
I waited in ambush for this Shaitaan, and after a short portion of the night had elapsed, he appeared in the form of an elephant. When he reached the door, he changed his form and entered through a crack in the door. He then approached the dates and began to swallow them. I firstly checked that my clothing was tightly secured and then confronted and apprehended him saying, ‘I testify that there is no deity besides Allah and that Muhammad Sallallahu Alayhi wa Sallam is His servant and messenger! O enemy of Allah! You have rushed to take the dates of sadaqah whereas the poor are more deserving of it than you! I am definitely going to take you to Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam, and he will disgrace you!’ When he heard this, he began to plead with me and promised me that he would not return (and I thus released him).
The following morning, I went to Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam)who asked me, ‘What happened to the one you captured?’ I replied, ‘He promised me that he would not return,’ Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam said, ‘He will return, so wait for him in ambush.’
I waited for him on the second night and again captured him. He again pleaded and promised that he would not return, and so I again released him. In the morning, I proceeded to Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam to inform him of what had transpired. However, before I could reach Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam, I heard someone calling out, ‘Where is Mu‘aaz?’ When I reached Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam), he asked me, ‘What happened to your prisoner?’ I told Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam what had happened, to which he replied, ‘He will return, so wait for him in ambush.’
I waited for him for a third night. On this occasion, when I apprehended him, I addressed him saying, ‘O enemy of Allah! You have already promised me twice that you will not return! I will now definitely take you to Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam and he will disgrace you!’ The Shaitaan pleaded, ‘I am a Shaitaan who has dependents and I have come from Naseebeen! If I was able to find some food closer to Naseebeen, I would not have come to you! We used to live in this city of yours (Madeenah Munawwarah). However, after your Nabi Sallallahu Alayhi wa Sallam was deputed, there were two verses of your Quran that were revealed, and these two verses chased us away. We thus went to Naseebeen. If these two verses are recited in any home, no Shaitaaan will enter that home for three days. If you release me, I will teach you these two verses.’ I agreed to release him, after which he said, ‘The two verses are Aayatul Kursi and the concluding verses of Surah Baqarah, commencing from ‘Aamanar Rasulu’ until the end of the surah.’
The following morning, I set out to inform Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam of what had occurred, when I heard someone announce, ‘Where is Mu‘aaz bin Jabal?’ When I entered into the presence of Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam, he enquired, ‘What happened to your captive?’ I replied, ‘He promised me that he would not return,’ and I also told Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam of the two verses that he had taught me. When he heard this, Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam remarked, ‘The wretch has spoken the truth, whereas he is normally a liar.’
I would thereafter recite these verses on the dates of sadaqah and would no longer find any decrease in their quantity.” (Tabraani – Majma‘uz Zawaa’id #10920 & Fathul Baari vol. 4, pgs. 614 & 615)
Lessons:
1. The Quraan is a powerful means of protection from Shaitaan, black magic, etc. Hence, regularly reciting the Quran within the home is a very effective means of protecting the home from evil forces. Furthermore, there are certain verses in the Quraan Majeed that are especially powerful in gaining protection. Most of these verses have been gathered in a compilation known as the ‘Manzil’ which can be recited daily or more frequently if required. Click ‘here’ to download the Manzil.
2. When reciting the verses and Duas of protection, it is important for a person to have strong ‘yaqeen’ (conviction and faith) in the power of these verses and their effectiveness. Hence, they should be read with presence of mind and not merely read in an absent-minded manner, as if one is fulfilling a routine.
3. The Shayaateen and Jinn are notorious liars, as explained by Rasulullah Sallallahu Alayhi wa Sallam himself. Hence, the information given by Jinn, even if it be through the medium of an ‘Aamil, cannot be trusted and relied on – especially if this information accuses any person of being responsible for the black magic, etc. Sadly, people often accept this information and, as a result, commit the major sin of breaking family ties and accusing people of black magic, whereas they have no proof at all.
Jamiatul Ulama (KZN)
Council of Muslim Theologians
223 Alpine Road, Overport
Durban, South Africa
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 451 حدیث قدسی حدیث متواتر مکررات 60 متفق علیہ 23
محمد بن اسماعیل، ہشام بن عمار، عبدالحمید بن حبیب بن ابی عشرین، اوزاعی، حسان بن عطیہ، حضرت سعید بن مسیب (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے ملاقات کی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہم دونوں کو جنت کے بازار میں اکٹھا کرے۔ حضرت سعید بن مسیب نے پوچھا کیا اس میں بازار ہوں گے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا ہاں مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا کہ جنتی جب بازاروں میں داخل ہوں گے تو اپنے اعمال کی فضیلت کے مطابق اس میں اتریں گے پھر دنیاوی جمعہ کے دن کے برابر وقت میں آواز دی جائے تو یہ لوگ اپنے رب کی زیارت کریں گے۔ ان کے لئے اس کا عرش ظاہر ہوگا اور اللہ تعالیٰ باغات جنت میں سے کسی ایک باغ میں تجلی فرمائے گا۔ جنتیوں کے لئے منبر بچھائے جائیں گے جو نور، موتی، یاقوت، زمرد، سونے اور چاندی کے ہوں گے۔ اور ان میں سے ادنیٰ درجے کا جنتی (اگرچہ ان میں کوئی ادنیٰ نہیں ہوگا) بھی مشک اور کافور کے ٹیلوں پر ہوگا۔ وہ لوگ یہ نہیں دیکھ سکیں گے کہ کوئی ان سے اعلی منبروں پر بھی ہے (تاکہ وہ غمگین نہ ہوں) ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم اللہ رب العزت کو دیکھیں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں کیا تم لوگوں کو سورج یا چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں کوئی زحمت یا تردد ہوتا ہے ؟ ہم نے کہا نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسی طرح تم لوگ اپنے رب کو دیکھنے میں زحمت و تردد میں مبتلا نہیں ہوں گے۔ بلکہ اس مجلس میں کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جو بالمشافہ اللہ تعالیٰ سے گفتگو نہ کرسکے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی سے کہیں گے کہ اے فلاں بن فلاں تمہیں یاد ہے کہ تم نے فلاں دن اس طرح کہا تھا اور اسے اس کے بعض گناہ یاد دلائیں گے۔ وہ عرض کرے گا اے اللہ کیا آپ نے مجھے معاف نہیں کردیا اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیوں نہیں۔ میری مغفرت کی وسعت ہی کی وجہ سے تو تم اس منزل پر پہنچے ہو۔ اس دوران ان لوگوں کو ایک بدلی ڈھانپ لے گئی اور ان پر ایسی خوشبو کی بارش کرے گی کہ انہوں نے کبھی ویسی خوشبو نہیں سونگھی ہوگی۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اٹھو اور میری کرامتوں (انعامات) کی طرف جاؤ جو میں نے تمہارے لئے رکھے ہیں اور جو چاہو لے لو۔ پھر ہم لوگ اس بازار کی طرف جائیں گے۔ فرشتوں نے اس کا احاطہ کیا ہوا ہوگا۔ اور اس میں ایسی چیزیں ہوں گی جنہیں نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی دل پر ان کا خیال گزرا۔ چناچہ ہمیں ہر وہ چیز عطا کی جائے گی۔ جس کی ہم خواہش کریں گے۔ وہاں خریدو فروخت نہیں ہوگی۔ پھر وہاں جنتی ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر ان میں ان سے اعلی مرتبے والے جنتی اپنے سے کم درجے والے سے ملاقات کرے گا۔ حالانکہ ان میں سے کوئی بھی کم درجے والا نہیں ہوگا تو اسے اس کا لباس پسند آئے گا۔ ابھی اس کی بات پوری بھی نہیں ہوگی کہ اس کے بدن پر اس سے بھی بہتر لباس ہوجائے گا۔ یہ اس لئے ہوگا کہ وہاں کسی کا غمگین ہونا جنت کی شان کے خلاف ہے۔ پھر ہم اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوجائیں گے۔ وہاں جب ہماری اپنی بیویوں سے ملاقات ہوگی تو وہ کہیں گی۔ مَرْحَبًا وَأَهْلًا تم پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو کر لوٹے ہو۔ ہم کہیں گے کہ آج ہم اپنے رب جبار کی مجلس میں بیٹھ کر آ رہے ہیں۔ لہذا اسی حسن و جمال کے مستحق ہیں۔ یہ حدیث غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ وہ ابوہریرہ (رض) سے ملے تو انہوں نے کہا : میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور تمہیں جنت کے بازار میں ملا دے، سعید بن مسیب نے کہا : کیا وہاں بازار بھی ہوگا ؟ فرمایا : ہاں، مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا ہے کہ " اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو ان کے مراتب اعمال کے مطابق ان کو جگہ ملے گی، پھر ان کو دنیا کے دنوں میں سے جمعہ کے دن کے برابر اجازت دی جائے گی، وہ اللہ عزوجل کی زیارت کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کے لیے اپنا عرش ظاہر کرے گا، اور ان کے سامنے جنت کے باغات میں سے ایک باغ میں جلوہ افروز ہوگا، ان کے لیے منبر رکھے جائیں گے، نور کے منبر، موتی کے منبر، یاقوت کے منبر، زبرجد کے منبر، سونے اور چاندی کے منبر اور ان میں سے کم تر درجے والا (حالانکہ ان میں کم تر کوئی نہ ہوگا) مشک و کافور کے ٹیلوں پر بیٹھے گا، اور ان کو یہ خیال نہ ہوگا کہ کرسیوں والے ان سے زیادہ اچھی جگہ بیٹھے ہیں "۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ فرمایا : " ہاں، کیا تم سورج اور چودھویں کے چاند کو دیکھنے میں جھگڑتے ہو "؟ ہم نے کہا : نہیں، فرمایا : " اسی طرح تم اپنے رب عزوجل کو دیکھنے میں جھگڑا نہیں کرو گے اور اس مجلس میں کوئی شخص نہیں بچے گا مگر اللہ تعالیٰ ہر شخص سے گفتگو کرے گا، یہاں تک کہ وہ ان میں سے ایک شخص سے کہے گا : اے فلاں ! کیا تمہیں یاد نہیں کہ ایک دن تم نے ایسا ایسا کیا تھا ؟ (اس کو دنیا کی بعض غلطیاں یاد دلائے گا) تو وہ کہے گا : اے میرے رب ! کیا تم نے مجھے معاف نہیں کیا ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیوں نہیں، میری وسیع مغفرت ہی کی وجہ سے تو اس درجے کو پہنچا ہے، وہ سب اسی حالت میں ہوں گے کہ ان کو اوپر سے ایک بادل ڈھانپ لے گا، اور ایسی خوشبو برسائے گا جو انہوں نے کبھی نہ سونگھی ہوگی، پھر فرمائے گا : اب اٹھو اور جو کچھ تمہاری مہمان نوازی کے لیے میں نے تیار کیا ہے اس میں سے جو چاہو لے لو، فرمایا : پھر ہم ایک بازار میں آئیں گے جس کو فرشتوں نے گھیر رکھا ہوگا، اس میں وہ چیزیں ہوں گی جن کے مثل نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا، اور نہ دلوں نے سوچا، (فرمایا) ہم جو چاہیں گے ہمارے لیے پیش کردیا جائے گا، اس میں کسی چیز کی خریدو فروخت نہ ہوگی، اس بازار میں اہل جنت ایک دوسرے سے ملیں گے، ایک اونچے مرتبے والا شخص آگے بڑھے گا اور اپنے سے نیچے درجے والے سے ملے گا (حالانکہ ان میں کوئی کم درجے کا نہ ہوگا) وہ اس کے لباس کو دیکھ کر مرعوب ہوگا، لیکن یہ دوسرا شخص اپنی گفتگو پوری نہ کر پائے گا کہ اس پر اس سے بہتر لباس آجائے گا، ایسا اس لیے ہے کہ جنت میں کسی کو کسی چیز کا غم نہ رہے "۔ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں : پھر ہم اپنے گھروں کو لوٹیں گے، تو ہماری بیویاں ہم سے ملیں گی، اور خوش آمدید کہیں گی، اور کہیں گی کہ تم آگئے اور تمہاری خوبصورتی اور خوشبو اس سے کہیں عمدہ ہے جس میں تم ہمیں چھوڑ کر گئے تھے، تو ہم کہیں گے : آج ہم اپنے رب کے پاس بیٹھے، اور یہ ضروری تھا کہ ہم اسی حال میں لوٹتے۔
تخریج دارالدعوہ : «سنن الترمذی/صفة الجنة ١٥ (٢٥٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٩١) (ضعیف) (سند میں عبد الحمید ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٧٢٢ )
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1217 حدیث قدسی مکررات 60 متفق علیہ 23
ہشام بن عمار، عبدالحمید بن حبیب بن ابی عشرین، عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی، حسان بن عطیہ، حضرت سعید بن المسیب (رض) سے روایت ہے وہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ملے ابوہریرہ (رض) نے ان سے کہا میں اللہ سے یہ دعا کرتا ہوں مجھ کو اور تم کو جنت کے بازار میں ملائے۔ سعید نے کہا کیا وہاں بازار ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں مجھ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان کیا کہ جنت کے لوگ جب جنت میں داخل ہوں گے تو وہاں اتریں گے اپنے اپنے اعمال کے درجوں کے لحاظ سے پھر ان کو اجازت دی جائے گی ایک ہفتہ کے موافق دنیا کے دنوں کے حساب سے یا جمعہ کے دن کے موافق کیونکہ جنت میں دنیا کی طرح دن اور رات نہ ہوں گے اور بعضوں نے کہا جنت میں بھی جمعہ کا دن ہوگا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی زیارت کریں گے اور پروردگار ان کیلئے اپنا تخت ظاہر کرے گا اور پروردگار خود نمودار ہوگا جنت کے باغوں میں سے اور منبر سونے کے اور منبر چاندی کے یہ سب کرسیاں ہوں گی اور مالک اپنے تخت شاہی پر جلوہ گر ہوگا یہ دربار عالی شان ہے ہمارے مالک کا اور جو کوئی جنت والوں میں کم درجہ ہوگا حالانکہ وہاں کوئی کم درجہ نہیں وہ مشک اور کافور کے ٹیلوں پر بیٹھیں گے اور ان کے دلوں میں یہ ہوگا کہ کرسی والے ہم سے زیادہ نہیں ہیں درجہ میں۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں کیا تم ایک دوسرے سے جھگڑا کرتے ہو چودھویں رات کے چاند اور سورج کے دیکھنے میں ہم نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا اسی طرح اپنے مالک کے دیکھنے میں بھی جھگڑا نہ کرو گے اور اس مجلس میں کوئی ایسا باقی نہ رہے گا جس سے پروردگار مخاطب ہو کر بات نہ کرے گا یہاں تک کہ وہ ایک شخص سے فرمائے گا اے فلانے تجھ کو یاد ہے تو نے فلاں فلاں دن ایسا ایسا کام کیا تھا اس کے بعض گناہ اس کو یاد دلائے گا وہ کہے گا اے میرے مالک کیا تو نے میرے گناہ بخش نہیں دئیے اور تیری بخشش کے وسیع ہونے ہی کیوجہ سے تو میں اس درجہ تک پہنچا پھر وہ اسی حال میں ہوں گے کہ ناگہاں ایک ابر اوپر سے آن کر ان کو ڈھانپ لے گا اور ایسی خوشبو برسائے گا کہ ویسی خوشبو انہوں نے کبھی نہیں سونگھی ہوگی پھر پروردگار فرمائے گا اب اٹھو اور جو میں نے تمہاری خاطر کیلئے تیار کیا ہے اس میں جو جو تمہیں پسند آئے وہ لے لو اور ابوہریرہ (رض) نے کہا اس وقت ہم ایک بازار میں جائیں گے جس کو ملائکہ گھیرے ہوں گے اور اس بازار میں ایسی چیزیں ہوں گی جن کی مثل نہ کبھی آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا نہ دل پر ان کا خیال گزرا اور جو ہم چاہیں گے وہ ہمارے لئے اٹھا دیا جائے گا نہ وہاں کوئی چیز بکے گی نہ خریدی جائے گی اور اسی بازار میں سب جنت والے ایک دوسرے سے ملیں گے پھر ایک شخص سامنے آئے گا جس کا مرتبہ بلند ہوگا اور اس سے وہ شخص ملے گا جس کا مرتبہ کم ہوگا وہ اس کا لباس اور ٹھاٹھ دیکھ کر ڈرجائے گا لیکن ابھی اس کی گفتگو اس شخص سے ختم نہ ہوگی کہ اس پر بھی اس سے بہتر لباس بن جائے گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت میں کسی کو رنج نہ ہوگا ابوہریرہ (رض) نے کہا پھر ہم اپنے اپنے مکان میں لوٹیں گے وہاں ہماری بیویاں ہم سے ملیں گی اور کہیں گی اہلا و سہلا و مرحبا ! تم تو ایسے حال میں آئے کہ تمہارا حسن اور جمال اور خوشبو اس سے کہیں عمدہ ہے جس حال میں تم ہم کو چھوڑ کر گئے تھے ہم ان کے جواب میں کہیں گے آج ہم اپنے پروردگار کے پاس بیٹھے۔
The Market of Paradise
Sayyiduna Ali Radhiyallahu Anhu reports that Rasulullah Sallallahu Alayhi Wasallam said, “Indeed in Paradise there is a market in which there is no buying nor selling – except for images of men and women. So whenever a man desires an image, he enters it (i.e. he will transform into it).” (Tirmidhi)
قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ ۙ
کہ خدا کی مار ہے ان خندق (کھودنے) والوں پر (٣)
اصحاب الاخدود ملعون تھے ‘ خندقوں والے حضرت صہیب راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گزشتہ اقوام میں یمن میں ایک بادشاہ تھا۔ اس کے پاس ایک جادوگر تھا جادوگر جب بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا : میں تو بوڑھا ہوگیا اس لیے کوئی لڑکا میرے پاس بھیج دیجئے کہ میں اس کو سحر سکھا دوں۔ بادشاہ نے ایک لڑکا اس کے پاس جادو سیکھنے کے لیے بھیج دیا۔ لڑکے کے راستہ میں ایک درویش پڑتا تھا۔ لڑکا درویش کے پاس جاتا تھا اور اس کی باتیں سنتا تھا تو اس کی باتیں اس کو پسند آجاتی تھیں۔ چنانچہ جادوگر کے پاس جانے میں درویش کے پاس راستہ میں بیٹھ جانے کی وجہ سے دیر ہوجاتی تھی۔ ساحر اس کو مارتا تھا اور جادوگر کے پاس سے واپسی میں بھی لڑکا اس درویش کے پاس بیٹھ جاتا اور اس کی باتیں سنتا تھا ‘ اس لیے گھر پہنچنے میں بھی دیر ہوجاتی تھی۔ گھر والے بھی اس کو مارتے تھے۔ لڑکے نے درویش سے اس بات کی شکایت کی۔ درویش نے کہا : جب تم جادوگر کے پاس پہنچا کرو تو اس سے کہہ دیا کرو کہ مجھے گھر والوں نے روک لیا تھا اس لیے دیر ہوگئی اور گھر پہنچا کرو تو گھر والوں سے کہہ دیا کرو کہ مجھے جادوگر نے روک لیا تھا ‘ اس لیے دیر ہوگئی۔ غرض لڑکا اسی طرح کرتا رہا (ایک روز) جب رستہ میں جا رہا تھا تو دیکھتا کیا ہے کہ ایک بڑے جانور (درندہ) نے لوگوں کا راستہ روک رکھا ہے ‘ لڑکا کہنے لگا : آج میں آزمائش کروں گا کہ درویش افضل ہے یا جادوگر ؟ یہ سوچ کر پتھر لے کر کہنے لگا : اے خدا ! اگر درویش کا معاملہ جادوگر کے معاملہ سے تجھے زیادہ محبوب ہے تو اس جانور کو قتل کر دے تاکہ لوگ راستہ پر چلنے لگیں۔ یہ دعا کر کے لڑنے نے پتھر مارا اور جانور مرگیا۔ لوگ راستہ چلنے لگے اور لڑکے نے جا کر درویش سے یہ بات کہہ دی۔ درویش نے کہا : بیٹے اب تو مجھ سے افضل ہے ‘ تیرا معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے جیسا تو دیکھ رہا ہے۔ عنقریب تو مصائب میں مبتلا ہوگا۔ مصائب میں مبتلا ہو کر کہیں میرا نام نہ بتا دینا۔
اِس کے بعد وہ لڑکا مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کا اور لوگوں کے امراض کا (کامیاب) علاج کرنے لگا۔ ایک بار بادشاہ کے کسی ہم نشین نے لڑکے کی یہ شہرت سن لی ‘ وہ نابینا ہوگیا تھا۔ لڑکے کے پاس بہت سے تحفے لے کر پہنچا اور کہا : اگر تو مجھے اچھا کر دے گا تو یہ سب تحفے تیرے لیے ہیں۔ لڑکے نے کہا : میں شفا کسی کو نہیں دیتا ‘ اللہ شفا دیتا ہے اگر تو اللہ کو اور اللہ سے دعا کرنے کو مان لے گا تو اللہ تجھے شفا عطا فرما دے گا۔ وہ ایمان لے آیا ‘ اللہ نے اس کو شفا دے دی۔ وہ (بینا ہو کر) بادشاہ کے پاس پہنچا اور (نابینا ہونے سے پہلے) جیسا بیٹھتا تھا جا کر بیٹھ گیا۔ بادشاہ نے پوچھا : یہ بینائی کیسے لوٹ آئی ؟ ہم نشین نے کہا : میرے مالک نے لوٹا دی۔ بادشاہ نے کہا : کیا تیرا کوئی مالک میرے علاوہ اور بھی ہے ؟ ہم نشین نے کہا : وہ میرا بھی رب ہے اور تیرا بھی۔ بادشاہ نے اس کو قید کردیا اور برابر دکھ دیتا رہا۔ یہاں تک کہ اس نے لڑکے کا پتہ بتلا دیا۔ لڑکے کو لایا گیا۔ بادشاہ نے اس سے کہا : میرے بیٹے ! تیرے سحر کی حالت اب اس حد تک پہنچ گئی کہ مادر زاد نابینا اور کوڑھی کو اچھا کرنے لگا۔ لڑکے نے کہا : میں کسی کو شفا نہیں دیتا ‘ اللہ ہی شفا دیتا ہے۔ بادشاہ نے اس کو بھی گرفتار کرلیا اور اتنا دکھ دیا کہ بالآخر اس نے درویش کا پتہ بتادیا۔ درویش کو لایا گیا اور اس سے کہا گیا : اپنے مذہب سے باز آ۔ درویش نے انکار کردیا۔ بادشاہ نے اس کے وسط سر پر آرہ رکھوا کر دو ٹکڑا کرا دیا۔ پھر لڑکے کو بلوایا گیا اور کہا : اب بھی اپنے دین سے باز آ جا۔ لڑکے نے انکار کیا۔ بادشاہ نے اپنے چند آدمیوں کو بلوا کر حکم دیا اس لڑکے کو فلاں فلاں پہاڑ کے اوپر لے جاؤ اور چوٹی پر پہنچ کر اگر یہ اپنا دین ترک کر دے تو خیر ! ورنہ اس کو نیچے پھینک دو ۔ لوگ اس کو پہاڑ پر لے گئے۔ لڑکے نے دعا کی : الٰہی ! مجھے ان کے شر سے بچا ‘ جس طرح تو چاہے۔ یک دم پہاڑ میں زلزلہ آگیا ‘ سب گرگئے۔ لڑکا پھر چلتا چلتا بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ نے پوچھا : تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا ؟ لڑکے نے کہا : اللہ نے مجھے ان سے بچا لیا۔
بادشاہ نے پھر لڑکے کو چند آدمیوں کے حوالے کر کے حکم دیا اس کو لے جا کر کشتی میں بٹھا کر سمندر میں لے جاؤ۔ اگر یہ اپنے مذہب سے توبہ کرلے تو خیر ! ورنہ سمندر میں پھینک دو ۔
لوگ لڑکے کو لے گئے۔ لڑکے نے دعا کی : الٰہی ! جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچا لے (طوفان کی وجہ سے) کشتی الٹ گئی ‘ سب ڈوب گئے اور لڑکا چلتا چلتا پھر بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ نے ساتھ والوں کی کیفیت دریافت کی۔ لڑکے نے کہا : اللہ نے مجھے ان سے بچا لیا (ان کو ڈبو دیا) پھر کہنے لگا : جب تک میرے کہنے کے موافق تو عمل نہیں کرے گا مجھ کو قتل نہیں کرسکتا۔ بادشاہ نے پوچھا : وہ کیا بات ہے ؟ لڑکے نے کہا : ایک میدان میں لوگوں کو جمع کرو اور مجھے کسی لکڑی کے ستون سے باندھ کر لٹکا دو پھر میری ترکش سے ایک تیر لے کر کمان کے چلے میں رکھ کر بسم اللہ ربّ الغلام کہہ کر تیر مجھ پر چھوڑ دو اگر ایسا کرو گے تو مجھے قتل کرسکو گے۔ حسب مشورہ بادشاہ نے لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا۔ لڑکے کو لکڑی کے تنہ سے باندھ کر لٹکا دیا اور اس کی ترکش سے ایک تیر لے کر کمان کے چلہ میں رکھ کر بسم اللہ ربّ الغلام کہہ کر مارا۔ فوراً لڑکے کی کنپٹی میں پیوست ہوگیا اور لڑکا مرگیا۔ یہ دیکھ کر لوگوں نے تین بار کہا : ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے۔ کچھ آدمیوں نے بادشاہ سے جا کر کہا : دیکھئے ! جس بات کا آپ کو اندیشہ تھا وہی واقع ہوگئی۔ سب لوگ لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے۔
بادشاہ نے کوچوں کے دہانوں پر خندق کھودنے کا حکم دیا۔ خندقیں کھود دی گئیں تو ان میں لکڑیاں بھر کر آگ لگا دی اور حکم دے دیا کہ جو شخص اپنے مذہب سے نہ پھرے ‘ اس کو خندق میں ڈال دو ۔ لوگ حکم کی تعمیل کرنے لگے۔ آخر ایک عورت بھی آئی جس کے پاس چھوٹا بچہ تھا۔ عورت خندق میں گرنے سے جھجکی لیکن بچہ نے کہا : اماں ثابت قدم رہ ! بلاشبہ تو حق پر ہے۔ (صحیح مسلم)
عطاء نے حضرت ابن عباس کی روایت سے ایسا ہی قصہ نقل کیا ہے جس میں حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بھی بیان کیا کہ نجران (علاقہ یمن) میں حمیری بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا ‘ جس کا نام یوسف ذونواس بن شرحبیل تھا۔ یہ واقعہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت مبارک سے ستّر سال پہلے کا ہے ‘ اس زمانہ میں کوئی نبی نہ تھا اور اس لڑکے کا نام عبداللہ بن تامر تھا۔ محمد بن اسحاق نے وہب بن منبہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ذونواس نے بارہ ہزار آدمی جلا دیئے پھر ارباط (حبشی) نے یمن فتح کرلیا اور ذونواس بھاگ کر مع گھوڑے کے سمندر میں گھس گیا اور ڈوب گیا۔ کلبی (رض) نے بیان کیا کہ ذونواس نے عبداللہ بن تامر (رض) کو قتل کیا تھا۔
(مظہری)
اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَھٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭوَاللّٰهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ 68
ابراہیم کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی، نیز یہ نبی ( آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور وہ لوگ ہیں جو ( ان پر) ایمان لائے ہیں، اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے۔
بغوی نے کلبی کی روایت سے اور محمد بن اسحاق (رح) نے زہری کی روایت سے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ جب حضرت جعفر بن ابی طالب کچھ صحابیوں کو ساتھ لے کر مکہ چھوڑ کر حبشہ کو چلے گئے اور رسول اللہ بھی مدینہ کو ہجرت کر گئے اور پھر بدر کی جنگ بھی ہوچکی (جس میں بڑے بڑے قریشی سردار مارے گئے اور بہت سے گرفتار ہوگئے) تو اس کے بعد قریش نے مشورہ گھر میں کمیٹی کی اور کہنے لگے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو ساتھی نجاشی کے پاس چلے گئے ہیں ان کے ذمہ ہمارے مقتولین بدر کا قصاص ہے لہٰذا کچھ مال جمع کرکے نجاشی کے پاس بطور ہدیہ لے جاؤ ممکن ہے کہ تمہاری قوم کے جو لوگ اس کے پاس پہنچ گئے ہیں ان کو وہ تمہارے سپرد کردے (اور تم انتقام لے سکو) پس دو سمجھدار آدمیوں کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجو چنانچہ عمرو بن عاص اور عمارہ بن ابی معیط کو کچھ (طائف کے) چمڑے وغیرہ بطور ہدیہ دے کر نجاشی کے پاس سب نے باتفاق رائے بھیجا۔ یہ دونوں سمندری راستہ سے حبشہ جا پہنچے اور نجاشی کے دربار میں حاضر ہو کر اس کو سجدہ کیا اور دعا سلامتی دی اور عرض کیا : ہماری قوم آپ کی خیر خواہ اور شکر گذار ہے اور آپ کی عافیت کی طلبگار ہے قوم والوں نے ہم کو آپ کی خدمت میں اس بات پر آگاہ کرنے کے لیے بھیجا ہے کہ کچھ لوگ آپ کے پاس (مکہ کے) آئے ہیں ان سے آپ ہو شیار رہیں یہ لوگ ایک بڑے جھوٹے آدمی کے ساتھی ہیں جس نے رسول خدا ہونے کا دعویٰ کیا ہے مگر سوائے بیوقوفوں کے ہم میں سے کوئی بھی اس کے پیچھے نہیں ہوا ہم نے ان کو اتنا تنگ کیا کہ مجبور ہو کر انہوں نے ہمارے ملک کی ایک گھاٹی میں پناہ لی اور وہاں لوگوں کی آمد و رفت بند ہوگئی نہ وہاں سے کوئی باہر نکلتا ہے نہ باہر سے اندر جاتا ہے بھوک اور پیاس سے ان کی جانوں پر بنی ہوئی ہے آخر سختی سے تنگ آکر اس نے اپنے چچا کے بیٹے کو آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ وہ آپ کا مذہب خراب کردے اور آپ کی حکومت و رعیت کو بھی تباہ کردے آپ ان لوگوں سے احتیاط رکھیں اور ان کو ہمارے سپرد کردیں تاکہ ہم ان کو آپ سے روک دیں اور آپ کا کام ہوجائے ہمارے اس قول کا ثبوت یہ ہے کہ چونکہ وہ آپ کے دین اور طور طریقہ سے نفرت کرتے ہیں اس لیے جب وہ آپ کے سامنے آئیں گے تو سجدہ نہیں کریں گے اور نہ دوسروں کی طرح آداب شاہی بجا لائیں گے۔
نجاشی نے حضرت جعفرکو ساتھیوں سمیت طلب کیا یہ حضرت دروازہ پر ہی پہنچے تھے کہ حضرت جعفر نے چیخ کر کہا اللہ کا گروہ باریاب ہونے کی اجازت چاہتا ہے نجاشی نے آواز سن کر کہا اس چیخنے والے کو حکم دو کہ دوبارہ یہی الفاظ کہے حضرت جعفر نے پھر وہی کہا۔ نجاشی نے کہا جی ہاں۔ اللہ کے اذن اور ذمہ داری کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ عمرو بن عاص نے اپنی ساتھی سے کہا سن رہے ہو انہوں نے کس طرح لفظ حزب اللہ کہا اور نجاشی نے ان کو کیا جواب دیا۔ عمرو بن عاص اور عمارہ کو حضرت جعفر کے کلام اور نجاشی کے جواب سے دکھ ہوا۔ جب وہ حضرات اندر آئے تو نجاشی کو انہوں نے سجدہ نہیں کیا عمرو بن عاص نے نجاشی سے کہا آپ دیکھ رہے ہیں یہ آپ کو سجدہ کرنے سے بھی غرور کرتے ہیں (یعنی غرور کی وجہ سے آپ کو سجدہ بھی نہیں کرتے) نجاشی نے ان حضرات سے کہا کیا وجہ کہ تم نے مجھے سجدہ نہیں کیا اور وہ آداب بجا نہ لائے جو باہر سے آنے والے بجا لاتے ہیں صحابہ (رض) نے کہا ہم اس خدا کو سجدہ کرتے ہیں جس نے آپ کو پیدا کیا اور بادشاہ بنایا سلام کا یہ طریقہ ہمارا اس وقت تھا جب ہم بتوں کی پوجا کرتے تھے ١ ۔ لیکن اللہ نے ہمارے اندر ایک سچا نبی مبعوث فرمایا اس نے ہم کو اسی طرح سلام کرنے کا حکم دیا جو اللہ کو پسند تھا یعنی لفظ سلام کہنے کا یہی اہل جنت کا سلام ہے۔ اس گفتگو سے نجاشی سمجھ گیا کہ یہی بات حق ہے اور توریت و انجیل میں بھی یہی ہے۔ بولا تم میں سے کون ہے جس نے حزب اللہ کہہ کر باریاب ہونے کی چیخ کر اجازت طلب کی تھی۔ حضرت جعفر (رض) نے فرمایا : میں ہوں اس کے بعد آپ نے فرمایا : کوئی شبہ نہیں کہ آپ زمین کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ ہیں اور اہل کتاب میں سے ہیں آپ کے سامنے نہ زیادہ باتیں کرنا مناسب ہے، نہ کسی پر ظلم (آپ کے لیے سزاوار ہے) میں چاہتا ہوں کہ اپنے ساتھیوں کی طرف سے (تنہا) خود جواب دوں۔ آپ ان دونوں آدمیوں کو حکم دیدیجئے کہ ان میں سے ایک بات کرے اور دوسرا خاموش رہ کر ہماری گفتگو سنتا رہے یہ سن کر عمرو نے حضرت جعفر (رض) سے کہا بولو حضرت جعفر نے نجاشی سے کہا ان دونوں سے دریافت کیجئے کہ ہم کیا آزاد ہیں یا غلام (کہ بھاگ کر آگئے ہیں) ؟ عمرو نے کہا نہیں تم آزاد ہو اور معزز ہو۔ نجاشی نے کہا : غلام ہونے (کے الزام) سے تو بچ گئے۔ جعفر نے کہا ان سے دریافت کیجئے کیا ہم نے ناحق کوئی خون کیا ہے جس کا قصاص ہم سے لیا جائے ؟ عمرو نے کہا نہیں ایک قطرۂ خون بھی نہیں بہایا۔ جعفر (رض) نے کہا کیا ہم نے ناحق لوگوں کا مول لے لیا ہے جس کی ادائیگی ہمارے ذمہ ہے ؟ نجاشی نے کہ اگر (تمہارے ذمہ) قنطار ٢ بھی ہوگا تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ۔ عمرو نے کہا کوئی مال نہیں ایک قیراط بھی نہیں۔ نجاشی نے کہا تو پھر تم ان سے کیا مطالبہ کرتے ہو ؟ عمرو نے کہا ہم اور یہ ایک مذہب اور ایک طریقہ پر تھے باپ دادا کے دین پر تھے انہوں نے اس دین کو چھوڑ دیا اور دوسرے مذہب کے پیرو ہوگئے اس لیے ہماری قوم نے ہم کو آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ ان کو ہمارے حوالے کردیں۔ نجاشی نے پوچھا مجھے سچ سچ بتاؤ وہ مذہب جس پر تم تھے وہ کیا تھا اور جس دین کے اب پیرو ہو وہ کیا ہے ؟ جعفر نے کہا جس مذہب پر ہم تھے وہ شیطان کا دین تھا ہم اللہ کا انکار کرتے تھے پتھروں کو پوجتے تھے اور پلٹ کر جس دین کو ہم نے اختیار کیا وہ اللہ کا دین اسلام ہے اللہ کے پاس سے اس دین کو لے کر ہمارے پاس ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیا اور ایک کتاب بھی ویسی ہی آئی جیسی ابن مریم ( علیہ السلام) لے کر آئے تھے یہ کتاب بھی اس کتاب کے موافق ہے نجاشی نے کہا تم نے بڑا بول بولا ہے۔ نرم رفتار پر رہو اس کے بعد نجاشی کے حکم سے ناقوس بجایا گیا اور تمام عیسائی علماء و مشائخ جمع ہوگئے جب سب اکٹھے ہوگئے تو نجاشی نے ان سے کہا میں تم کو اس خدا کی جس نے عیسیٰ پر انجیل نازل کی تھی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم کو ٣ یہ بات ملتی ہے کہ عیسیٰ اور قیامت کے درمیان کوئی نبی مرسل آئے گا۔ علماء نے جواب دیا بیشک خدا گواہ ہے ایسا ہے ہم کو عیسیٰ نے اس کی بشارت دی ہے اور یہ بھی فرما دیا ہے کہ جو اس پر ایمان لایا وہ مجھ پر ایمان لایا اور جس نے اس کا انکار کیا اس نے میرا انکار کیا۔ نجاشی نے جعفر (رض) سے کہا یہ شخص تم سے کیا کہتا ہے کیا کرنے کا حکم دیتا ہے اور کس چیز سے منع کرتا ہے ؟ جعفر (رض) نے جواب دیا وہ ہمارے سامنے اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں، اچھے کاموں کا حکم دیتے ہیں، برے کاموں سے روکتے ہیں، ہمسایوں سے حسن سلوک کرنے، قرابت داروں سے میل رکھنے اور یتیموں کو نوازنے کا حکم دیتے ہیں اور یہ بھی ہدایت فرماتے ہیں کہ ہم فقط اللہ ہی کی پوجا کریں جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
نجاشی نے کہا جو کلام وہ تمہارے سامنے پڑھتے ہیں اس میں سے کچھ مجھے سناؤ۔ حضرت جعفر نے سورة عنکبوت و روم کی تلاوت کی جس کو سن کر نجاشی اور اس کے ساتھیوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے نجاشی کے ساتھی بولے۔ جعفر (رض) یہ پاکیزہ کلام کو کچھ اور سناؤ۔ حضرت جعفر (رض) نے سورة کہف پڑھ کر سنائی۔ یہ حالت دیکھ عمرو بن عاص نے چاہا کہ نجاشی کو جعفر پر غصہ دلادے اس لیے کہنے لگا یہ لوگ عیسیٰ اور ان کی ماں کو گالی دیتے ہیں اس پر نجاشی نے جعفر سے پوچھا تم عیسیٰ اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ حضرت جعفر نے جواب میں سورة مریم ( علیہ السلام) کی تلاوت کی اور مریم و عیسیٰ کے تذکرہ پر پہنچے تو نجاشی نے اپنی مسواک کا اتنا باریک ریزہ جیسے آنکھ میں تنکا پڑجاتا ہے اٹھایا اور کہنے لگا۔
خدا کی قسم مسیح اس بیان سے اتنے بھی زائد نہ تھے پھر جعفر اور ان کے ساتھیوں سے خطاب کرکے کہا جاؤ میرے ملک میں تم محفوظ ہو یعنی امن کے ساتھ رہو جو تم کو گالی دے گا یا کچھ ستائے گا اس کو سزا بھگتنا ہوگی پھر کہنے لگا تم خوش رہو کچھ اندیشہ نہ کرو۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے گروہ کا آج بگاڑ نہیں ہوگا۔ عمرو نے پوچھا نجاشی ابراہیم (علیہ السلام) کی جماعت کونسی ہے ؟ نجاشی نے جواب دیا یہی گروہ اور ان کا وہ آقا جس کے پاس سے یہ آئے ہیں اور ان کی پیروی کرنے والے۔ مشرکین نے اس بات کو ماننے سے انکار کیا اور خود دین ابراہیمی میں ہونے کا دعویٰ کیا پھر نجاشی نے وہ مال واپس کردیا جو عمرو اور اس کا ساتھی لے کر آئے تھے اور کہا تمہارا یہ ہدیہ محض رشوت ہے اس پر اپنا قبضہ کرلو اللہ نے بغیررشوت لیے مجھے بادشاہت عطا فرمائی ہے حضرت جعفر کا بیان ہے کہ پھر ہم لوٹ آئے اور بہترین مکان اور بڑی عزت کی عمدہ مہمانی میں رہے ادھر اللہ نے اسی روز مدینہ میں رسول اللہ پر حضرت ابراہیم کے دین پر ہونے کے نزاع کے متعلق یہ آیت نازل فرمادی : ان اولی الناس بابراہیم۔۔ .
تفسیرِ مظہری
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖٓ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً ۭ قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا ۭ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ 67
اِس حدیث کو حضرت سعید بن منصور نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کیا ہے اور ابن جریر نے بسند صحیح حضرت ابن عباس (رض) سے موقوفاً روایت کیا ہے ان کی اس پوچھ گچھ میں جو انہیں ایک خاص گائے ذبح کرنی پڑی۔ خدا تعالیٰ کی ایک عجیب حکمت تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک مرد صالح تھا اور اس کا ایک صغیر سن لڑکا تھا اور اسکے پاس ایک گائے کا بچہ تھا جسے وہ اپنے مرنے سے پہلے جنگل میں لایا اور اللہ تعالیٰ سے مناجات کی۔ خداوندا میں اس گائے کے بچہ کو اپنے بیٹے کے جوان ہونے تک آپ کے پاس امانت رکھتا ہوں پھر اسے چھوڑ کر چلا آیا اور آکر مرگیا۔ وہ بچھیا جنگل میں چرا کرتی جو اسے دیکھتا اس سے دور بھاگ جاتی جب وہ لڑکا جوان ہوا تو بڑا نیک تھا۔ والدہ کا بہت خدمت گذار بنا رات کے تین حصے کرکے ایک میں سوتا۔ دوسرے حصہ میں نماز پڑھتا۔ تیسری میں اپنی والدہ کے سرہانے بیٹھ جاتا اور سویرے جنگل سے لکڑیاں لا کر بازار میں فروخت کرتا اور اس کی قیمت کے تین حصہ کرکے ایک حصہ تو اللہ کی راہ میں دیتا اور ایک حصہ والدہ کو دیتا اور ایک میں آپ کھاتا پیتا ایک دن اس کی والدہ نے کہا بیٹا تیرا باپ تیرے لیے ایک گائے میراث میں چھوڑ گیا ہے اور فلاں جنگل میں سپرد خدا ہے تو جا اور یہ کہہ کر آواز دے کہ اے ابراہیم و اسماعیل کے معبود وہ گائے عنایت فرمادے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ جب تو اسے دیکھے گا تو تجھے معلوم ہوجائے گا کہ اس کی کھال سے گویا سورج کی شعاعیں نکل رہی ہیں اور چونکہ وہ گائے بہت خوبصورت اور زرد رنگ تھی اس لیے لوگ اسے سنہری گائے کہا کرتے تھے وہ جوان اپنی والدہ کے فرمانے کی بموجب اس جنگل میں آیا تو اسے چرتے دیکھ کر جس طرح ماں نے پکارنے کو کہا تھا پکارا وہ گائے بحکم الٰہی دوڑ کر سامنے چلی آئی۔ جوان گردن پکڑ کر کھینچنے لگا۔ گائے بولی اے ماں کے خدمت گزار مجھ پر سوار ہو لے تجھے آرام ملے گا اس نے کہا میری ماں کا یہی حکم ہے کہ گردن پکڑ کر لانا نہ کہ سوار ہو کر۔ گائے بولی اے جوان تو میرے کہنے سے سوار ہوجاتا تو پھر میں ہرگز تیرے قابو میں نہ آتی اور تیرا ماں کی اطاعت کے سبب وہ مرتبہ ہے کہ اگر تو پہاڑ کو حکم دے تو تیرے ساتھ چلنے لگے القصہ وہ گائے لے کر اپنی ماں کے پاس آیا۔ ماں نے کہا کہ بیٹا تو فقیر ہے دن کو لکڑیاں لانے رات کو قیام کرنے کی تجھ پر سخت مشقت و تکلیف ہے اس لیے مناسب یہ ہے کہ اسے فروخت کردے۔ جوان نے قیمت پوچھی کہا تین دینار کو دے دے۔ ( اس وقت گائے کی عام قیمت یہی تھی) ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ جب بیچنے لگے تو مجھ سے پوچھ لینا جوان اپنی مادر مہربان کے فرمانے کے بموجب گائے کو بازار میں لے گیا ادھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت دکھلانے اور اس کو اس کی والدہ کی خدمت میں جانچنے کے لیے ایک فرشتہ بھیجا آتے ہی اس نے قیمت پوچھی جوان نے کہا تین دینار مگر شرط یہ ہے کہ میں اپنی والدہ سے پوچھ لوں فرشہ نے کہا تو مجھ سے چھ دینار لے اور گائے مجھے دے دے ماں سے پوچھنے کی ضرورت نہیں اس نے کہا تو مجھے اگر اس کے برابر سونا بھی تول دے تو میں بلا رضا مندی اپنی والدہ کے نہ دوں گا یہ کہہ کر اپنی ماں کے پاس آیا اور کیفیت بیان کی ماں نے کہا جاؤ چھ ہی دینار کو دے دینا مگر خریدار سے میری رضا مندی کی شرط کرلینا۔ جوان پھر بازار گیا اور اس سے ملا اس نے کہا تو نے اپنی والدہ سے پوچھ لیا کہا ہاں پوچھ لیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ میری رضا مندی کی شرط کرلینا اس خریدار غیبی نے کہا تو اپنی ماں سے نہ پوچھ اور مجھ سے بارہ دینار لے جو ان نے انکار کیا اور اپنی ماں کے پاس آیا اور سارا قصہ بیان کیا ماں نے کہا وہ فرشتہ ہے تیرا امتحان لیتا ہے اب اگر اس سے ملنا ہو تو یہ پوچھنا کہ ہم اسے فروخت کریں یا نہ جب وہ بازار گیا اور اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے بیچنے کی بابت دریافت کیا اس نے کہا اپنی والدہ سے کہنا کہ اسے ابھی فروخت نہ کریں۔ موسیٰ ( علیہ السلام) تم سے ایک مقتول کے معاملہ میں خریدیں گے تم اسے کھال بھر دینار سے کم میں فروخت نہ کرنا چنانچہ انہوں نے اسے فروخت نہ کیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر یہ امر مقدر فرما دیا تھا کہ یہ فلاں گائے ذبح کریں گے اس لیے وہ اس کے لیے وہ اس کے اوصاف حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے پوچھتے رہے اور اللہ تعالیٰ اس گائے کے اوصاف بیان فرماتا رہا۔ حتی کہ اس کے تمام و کمال اوصاف بیان کردیئے یہ سب اس جوان کی نیک نیتی اور اپنی والدہ کی خدمت کا ثمر تھا اور اللہ تعالیٰ ککا اس پر فضل و رحم تھا۔
تفسیرِ مظہری
وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ۘاِذْ يَعْدُوْنَ فِي السَّبْتِ اِذْ تَاْتِيْهِمْ حِيْتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّيَوْمَ لَا يَسْبِتُوْنَ ۙ لَا تَاْتِيْهِمْ ڔ كَذٰلِكَ ڔ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ١٦٣
بنی اسرائیل کی حرکتیں بھی بہت بری تھیں ان کا نافرمانی کا مزاج تھا۔ ان پر آزمائش بھی طرح طرح سے آتی رہتی تھی، حکم تھا کہ سنیچر کے دن کی تعظیم کریں ان دنوں سے متعلق جو احکام تھے ان میں یہ بھی تھا کہ اس دن مچھلیاں نہ پکڑیں۔ لیکن یہ لوگ باز نہ آئے سنیچر کے دن ان کی آزمائش اس طرح ہوتی تھی کہ مچھلیاں خوب ابھر ابھر کر سامنے آجاتی تھیں اور دوسرے دنوں میں اس طرح نہیں آتی تھیں۔ ان لوگوں نے مچھلیوں کے پکڑنے کے حیلے نکالے اور یہ کہا کہ سنیچر کا دن آنے سے پہلے جال اور مچھلی کے کانٹے پہلے سے پانی میں ڈال دیتے تھے۔ چناچہ مچھلیاں ان میں پھنس کر رہ جاتی تھیں۔ جب سنیچر کا دن گزر جاتا تھا تو ان کو پکڑ لیتے تھے اور اپنے نفسوں کو سمجھا لیتے تھے کہ ہم نے سنیچر کے دن ایک مچھلی بھی نہیں پکڑی، وہ تو خود بخود جالوں میں اور کانٹوں میں آگئیں اور جال اور کانٹے تو ہم نے جمعہ کے دن ڈالے تھے لہٰذا ہم سنیچر کے دن پکڑنے والوں کی فہرست میں نہیں آتے، اسی طرح کا ایک حیلہ انہوں نے مردار کی چربی کے ساتھ بھی کیا۔ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ یہودیوں پر اللہ لعنت کرے جب اللہ نے ان پر مردار کی چربی حرام قرار دیدی تو اس کو انہوں نے اچھی شکل دے دی (مثلاً اس کو پگھلا کر اس میں کچھ خوشبو وغیرہ ملا کر کیمیکل طور پر کچھ اور بنا دیا) پھر اس کو بیچ دیا اور اس کی قیمت کھا گئے۔ (رواہ البخاری ص ٢٩٨ ج ١)
ان لوگوں میں تین جماعتیں تھیں کچھ لوگ سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑتے تھے اور کچھ لوگ ایسے تھے جو انہیں منع کرتے تھے اور ایک جماعت ایسی تھی جو خاموش تھی، جو لوگ خاموش تھے انہوں نے ان لوگوں سے کہا جو منع کرتے تھے۔ کہ آپ لوگ ان کو کیوں نصیحت کرتے ہیں ان کا بات ماننے کا ارادہ نہیں ہے۔ نافرمانی کے باعث اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی گرفت ہونے والی ہے یا تو اللہ تعالیٰ ان کو بالکل ہی ہلاک فرما دے گا یا سخت عذاب میں مبتلا فرمائے گا۔ جو لوگ منع کیا کرتے تھے انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیشی کے وقت ہم معذرت پیش کرسکیں کہ ہم نے نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا تھا ان لوگوں نے نہ مانا، اور ممکن ہے کہ یہ لوگ مان ہی جائیں اپنے رب سے ڈرنے لگیں اور اپنے گناہوں سے بچنے لگیں، لیکن ان لوگوں نے نہ مانا بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت فرما لی۔ ان پر اس طرح عذاب آیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بندر بنا دیا، جو لوگ سنیچر کے دن میں زیادتی کرتے تھے وہ تو بندر بنا دئیے گئے اور جو لوگ انہیں منع کیا کرتے تھے انہیں نجات دے دی گئی جن کو (اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْھَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ ) میں بیان فرمایا، حضرت ابن عباس (رض) کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ جو لوگ خاموش تھے ان کا کیا ہوا ؟ ان کے شاگرد حضرت عکرمہ نے عرض کیا میری سمجھ میں تو یوں آتا ہے کہ وہ بھی عذاب سے بچا لیے گئے کیونکہ انہیں بھی شکار کرنے والوں کا عمل نا گوار تھا اور اسی نا گواری کو انہوں نے اپنے ان الفاظ میں یوں ظاہر کیا تھا۔ (لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَان اللّٰہُ مُھْلِکُھُمْ اَوْ مُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا) اللہ تعالیٰ نے ان کو نجات دینے کا تذکرہ نہیں فرمایا اور ہلاک کرنے کا ذکر بھی نہیں فرمایا، عکرمہ کی یہ بات حضرت ابن عباس (رض) کو بہت پسند آئی اور بہت خوش ہوئے اور انہیں دو چادریں انعام میں عطا کیں۔ (معالم التنزیل ص ٢٠٩ ج ٢)
سنیچر کے دن زیادتی کرنے والوں کو بندر بنا دیا گیا تھا جس کا ذکر یہاں سورة اعراف میں بھی ہے اور سورة بقرہ میں بھی گزر چکا ہے۔ (انوار البیان جلد اول)
جس بستی کے رہنے والے حیلہ باز یہودیوں کا قصہ اوپر مذکور ہوا ہے اس کے بارے میں علماء تفسیر نے کئی قول نقل کیے ہیں ١۔ ایلہ ٢۔ طبریہ ٣۔ مقنا، متعین طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ عبرت حاصل کرنے کے لیے تعیین کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
بنی اسرائیل پر دنیا میں عذاب آتا رہے گا :
بنی اسرائیل اپنی حرکتوں کی وجہ سے بندر بنا دیئے گئے یہ تو اس وقت ہوا اور اس کے بعد ان پر برابر ایسے لوگوں کا تسلط رہا جو ان کو تکلیفیں دیتے رہے اور یہودی بری بری تکلیفوں میں مبتلا ہوتے رہے اس کو (وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْھِمْ ) (الآیۃ) میں بیان فرمایا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہودیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہاتھ سے پھر بخت نصر کے ذریعہ جو ان کی بربادی ہوئی اور پھر نبی آخر الزمان سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پھر فاروق اعظم حضرت عمر فاروق بن الخطاب (رض) کے ہاتھوں جو ان کی ذلت ہوئی تاریخ دان اس سے ناواقف نہیں ہیں۔ حضرت فاروق اعظم (رض) کے بعد بھی دنیا میں مقہور ہی رہے ذلت اور خواری کے ساتھ ادھر ادھر دنیا میں کبھی آباد اور کبھی برباد ہوتے رہے۔ پچاس سال پہلے نازیوں نے جو ان کا قتل عام کیا تھا تاریخ کا مطالعہ کرنے والے اس سے واقف ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں بھی یہودی مارے جائیں گے۔ وہ دجال کو قتل کریں گے اور اس وقت دجال کے ساتھیوں کی بربادی ہوگی۔ دنیا کی قومیں ظاہری اقتدار دیکھ کر دجال کے ساتھ ہوجائیں گی جن میں یہودی بھی ہوں گے۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اصفہان کے یہودیوں میں سے ستر ہزار یہودی دجال کا اتباع کریں گے جو چادریں اوڑھے ہوئے ہوں گے۔ (صحیح مسلم ص ٤٠٥ ج ٢)
چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سر زمین شام میں دجال کو قتل کریں گے اور اس کے ساتھیوں سے وہیں معرکہ ہوگا اس لیے تکوینی طور پر دنیا بھر سے اپنے رہنے کے علاقے کو چھوڑ چھوڑ کر یہودی شام کے علاقے میں جمع ہو رہے ہیں اور ان کی جھوٹی حکومت جو نصاریٰ کے بل بوتے پر قائم ہے وہ ان کے ایک جگہ جمع ہونے کا سبب بن گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ مسلمان یہودیوں سے قتال نہ کرلیں مسلمان ان کو قتل کریں گے یہاں تک کہ کوئی یہودی کسی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپ جائے گا تو درخت یا پتھر کہے گا کہ اے مسلم اے اللہ کے بندے یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے اسے قتل کر دے البتہ غر قد کا درخت ایسا نہ کرے گا کیونکہ وہ یہودیوں کے درختوں میں سے ہے۔ (رواہ مسلم ص ٣٩٦ ج ٢)
انوارالبیان: مولانا عاشق الہی بلندشہری رح