نفس اور شیطان کی دُشمنی کا فرق
انسان کے دو دشمن ہیں، ایک نفس ایک شیطان، نفس داخلی دشمن ہے شیطان خارجی دشمن ہے۔ ان دونوں دشمنوں میں فرق کیا ہے؟ نفس وہ دشمن ہے جو اصلاح کے بعد ولی اﷲ بھی ہوسکتا ہے لیکن شیطان وہ دشمن ہے جو مردودِ دائمی ہے، یہ کبھی ولی اﷲ نہیں ہوسکتا۔ دونوں دشمنوں کا یہ فرق اﷲ تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمایا، میں نے کتابوں میں کہیں نہیں دیکھا حالانکہ دونوں دشمن نصِ قطعی سے ہیں، دونوں دشمنوں کا ثبوت قرآنِ پاک اور حدیثِ پاک میں ہے لیکن دونوں دشمنوں میں فرق یہ ہے کہ تھوڑی سی محنت کرلو تو نفس ولی اﷲ ہوجاتا ہے اور شیطان پر کتنی محنت کرو یہ کبھی ولی اﷲ نہیں ہوسکتا یہ ہمیشہ مردود رہے گا،یہ فرق ہے دونوں دشمنوں میں۔
تو مشکاۃ شریف سے ملا علی قاری کی شرح ہوگئی کہ نفس متوسطہ ہے، بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجِسْمِ ہے یعنی روح لطیف ہے اور جسم کثیف ہے، اگر عمل اچھا ہوا تو اس میں لطافت آجاتی ہے یہاں تک کہ اسی نفس کے ساتھ لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے یعنی ولی اﷲ ہوگئے، عبادت یہ نفس ہی تو کرتا ہے، کام تو اسی ظالم سے لینا ہے، یہ تو مزدور ہے، گھوڑا ہے، اسی پر بیٹھ کر اﷲ تک پہنچنا ہے، مگر ایسا گھوڑا جو سوار کو گرا دے وہ منزل تک نہیں پہنچنے دیتا لہٰذا نفس کو اتنا مسٹنڈا مت کرو، اتنا مرغ وماہی مت کھلاؤ کہ جس سے نفس تم پر سواری کرلے، سواری پر سوار ہونا چاہیے نہ کہ سواری ہی سوار پر سوار ہوجائے، تو جو نفس کی بات مانتا ہے اور اﷲ کی نافرمانی کرتاہے یہ دلیل ہے کہ نفس کی سواری اس پر سواری کررہی ہے۔
اگر آپ گھوڑے پر جارہے ہیں اور دوہزار گز گہری کھائی آگئی اور نیچے ہری ہری گھاس ہے، سبزہ اُگا ہوا ہے تو اگر آپ نے نہ روکا تو گھوڑا گھاس کے لالچ میں کھائی میں کود کر جان دے دے گا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر آپ روکتے ہیں تو چونکہ گھوڑا بھوکا ہے اور ہری گھاس کا عاشق ہے، لگام کھینچنے کے باوجود بے تابی سے کھائی میں کودنے کی کوشش کرے گا، سوار کو چاہیے کہ اس وقت پوری طاقت سے لگام کھینچے چاہے گھوڑے کا گال پھٹ جائے، اگر سوار پوری طاقت سے اسے روکنے کی کوشش نہیں کرے گا تو گھوڑا بھی مرے گا اور سوار بھی مرے گا لہٰذا ہمت سے کام لو اور لگام پوری قوت سے کھینچو، زیادہ سے زیادہ گھوڑے کاگال پھٹ جائے گا، اس کی اصلاح آسان ہے، مویشی کے ڈاکٹر کے یہاں لے جاؤ، وہ مرہم پٹی کردے گا، انجکشن وغیرہ لگا دے گا لیکن اگر تم نے اس کے گالوں کی فکر کی تو تمہارا کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہوگا، تم ہلاک ہوجاؤ گے۔ تو جو لوگ گناہ میں نفس کی لگام ہلکی رکھتے ہیں وہ گناہ کر بیٹھتے ہیں اور اﷲ کے قہر اور عذاب کے گڈھے میں نفس بھی گرتا ہے اور خود بھی گرتے ہیں لہٰذا جسم کی فکر نہ کرو کہ گناہ چھوڑنے سے اس کو غم پہنچے گا بلکہ ان شاء اﷲ تعالیٰ اپنے نام کی برکت سے اﷲ تعالیٰ جسم کو صحت مند کردیں گے۔ تو یہ مثال کیسی ہے، اب کوئی پاگل ہی ہوگا جو کہے گا کہ گھوڑے کو گھاس کھانے کے لیے کھائی میں کود جانے دو، عقلمند سوار گھوڑے کو پوری طاقت سے روکے گا۔ بس گناہ سے بچنے میں بھی دانت پیس کے پوری طاقت سے ارادہ کرلو کہ گناہ نہیں کرناہے ؎
نہ دیکھیں گے نہ دیکھیں گے انہیں ہرگز نہ دیکھیں گے
کہ جن کے دیکھنے سے رب مرا ناراض ہوتا ہے
نہیں ناخوش کریں گے رب کو اے دل تیرے کہنے سے
اگر یہ جان جاتی ہے خوشی سے جان دے دیں گے
اور پھر یہ شعر پڑھیں؎
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
کتاب: خزائن معرفت ومحبت
شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ
اولیاء اللہ کی کرامت کی حدیث
علاج الغضب
۔۔۔ سلسلہ مواعظ حسنہ نمبر: ۴
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ
امام بخاری رحمہ اللہ بابِ کفالت کے اندر اولیاء اللہ کی کرامت کی حدیث لائے ہیں اور اولیاء اللہ کی کرامت کو بیان کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ولی کی کرامت کو بیان فرمارہے ہیں۔ پیغمبر ایک امتی کی کرامت کو بیان فرمارہے ہیں کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص کو جو اللہ تعالیٰ کے مقبول اور ولی تھے ایک ضرورت پیش آئی۔ انہوں نے ایک شخص سے ایک ہزار دینار قرضہ مانگا۔ قرض دینے والے نے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے؟ انہوں نے کہا : کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا۔‘‘ اللہ تعالیٰ باعتبار شاہد کے کافی ہیں یعنی شاہد کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کافی ہے پھر اس نے کہا کوئی کفیل اور ذمہ دار لائو کہ اگر تم نہ دو تو ہم کس سے وصول کریں؟ تب انہوں نے جواب دیا: ’’کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہی ہمارا وکیل اور کارساز ہے، وہی ہمارا کفیل ہے۔ یہ دو مضمون سن کر اس نے کہا: ’’صَدَقْتَ‘‘ تم نے سچ کہا۔ تم اپنے قول میں صادق ہو اور فوراً ایک ہزار دینار قرض دے دیا اور وہ دریا پار چلے گئے اور اپنی ضرورت کو پورا کیا۔
جس دن قرض ادا کرنے کا وعدہ تھا اس دن وہ دینار لے کر پھر آئے لیکن کوئی سواری نہ ملی۔ بے بے چارے بے چین تھے کہ کوئی کشتی ملے تو دریا پار جاکر اس کا قرض دے دیں۔ جب کوئی سواری نہ ملی تو انہوں نے لکڑی کا ایک موٹا سا کندالیا، اس میں سوراخ کیا اور ایک ہزار دینار میں رکھ دیئے۔ اوپر سے کیل لگاکر مضبوطی سے بند کردیا اور اللہ کے بھروسہ پر دریا میں ڈال دیا اور کہا یااللہ! آپ کو معلوم ہے کہ میں نے فلاں شخص سے قرضہ لیا تھا اور میں نے بہت کوشش کی کہ مجھے کوئی سواری مل جائے لیکن نہ ملی بس آپ اس کو حفاظت سے اس تک پہنچادیجئے جس سے میں نے قرض لیا تھا۔ اب ہوائوں کے تھپیڑوں میں لکڑی کا وہ بڑا سا ٹکڑا چل رہا ہے۔ کہیں اور بھی جاسکتا تھا۔ یہ کرامت تھی کہ ہوائوں کے تھپیڑوں سے اس بستی میں پہنچ گیا۔ اُدھر وہ صاحب انتظار کررہے تھے کہ شاید کسی کشتی سے وہ شخص میرا مال لے کر آجائے کہ اچانک دیکھا کہ ایک لکڑی کا ٹکڑا بہتا ہوا آرہا ہے۔ وہ انہوں نے اپنی بیوی کے لیے لے لیا کہ چلو چولہا گرم کرنے کا سامان اللہ نے بھیج دیا۔ بس اس پر کلہاڑی جو ماری تو ایک ہزار دینار اس میں سے نکل آئے اور ایک پرچہ بھی اس میں رکھا ہوا تھا کہ اے شخص! مجھ کو سواری نہیں ملی لہٰذا مجبوراً میں اللہ کے بھروسہ پر یہ بھیج رہا ہوں۔ اس کے بعد ان کو کشتی بھی مل گئی۔ کشتی پر بیٹھ کر وہ پھر ایک ہزار دینار لائے کہ ممکن ہے کہ پہلے دینار نہ ملے ہوں۔ لہٰذا جب انہوں نے پیش کئے تو اس نے کہا کہ آپ نے تو پہلے ہی بھیج دیے تھے اور سارا واقعہ بیان کیا کہ لکڑی کے اندر سے اس طرح سارا روپیہ مل گیا۔ فَانْصَرَفَ بِاَلْفِ دِیْنَارٍ رَاشِدًا پس نہایت ہی خوش اور اللہ تعالیٰ کے اس فضل اور کرامت پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے واپس ہوگئے۔
(بخاری شریف کتاب الکفالۃ: ص ۳۰۶، ج۱)
سورہ تکویر (خلاصہ) مع قاری عبد الباسط صاحب کی یادگار اور دل سوز تلاوت
سورہ تکویر
قیام قیامت اور حقانیت قرآن اس کے مرکزی مضامین ہیں ۔ قیامت کے دن کی شدت اور ہولناکی اور ہر چیز پر اثر انداز ہو گی۔ سورج بے نور ہو جائے گا۔ ستارے دھندلا جائیں گے، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے، پسندیدہ جانوروں کو نظر انداز کر دیا جائے گا، جنگی جانور جو علیحدہ علیحدہ رہنے کے عادی ہوتے ہیں یکجا جمع ہو جائیں گے۔ (پانی اپنے اجزائے ترکیبی چھوڑ کر ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تبدیل ہو کر) سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی۔ انسان کا سارا کیا دھرا اس کے سامنے آ جائے گا۔ پھر کائنات کی قابل تعجب حقیقتوں کی قسم کھا کر بتایا کہ جس طرح یہ چیزیں ناقابل انکار حقائق ہیں اسی طرح قرآنی حقیقت کو بھی تمہیں تسلیم کر لینا چاہئے۔ پھر قرآن کریم کے اللہ رب العزت سے چل کر حضور علیہ السلام تک پہنچنے کے تمام مراحل انتہائی محفوظ اور قابل اعتماد ہونے کو بیان کر کے واضح کر دیا کہ یہ دنیا جہاں کے لئے بلا کسی تفریق و امتیاز کے اپنے دامن میں نصیحت و ہدایت کا پیغام لئے ہوئے ہے۔
(In case of missing audio, visit web link: http://self.zikr.pk/343.htm)
http://kitaben.urdulibrary.org/Pages/KhulasaQuran.html
خلاصہ قرآن
پارہ بہ پارہ
مفتی عتیق الرحمٰن شہید
بچوں کی نفسیات کے مطابق برتاؤ کریں
اللہ تعالی نے ہر بچے کو الگ الگ خوبیاں عطا کی ہیں۔ ہر بچے کے سوچنے سمجھنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ جب والدین اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں تو انہیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے اس کی ایک اپنی الگ شخصیت بن جاتی ہے۔ کبھی اپنے بچے کا دوسرے بچوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔
بچوں کو سمجھنے کے بہت سے طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ مشاہدہ کریں کہ آپ کا بچہ کس طرح سوتا ہے؟ کس طرح کھاتا ہے؟ کس طرح کھیلتا ہے؟ کون سی ایسی سرگرمی ہے جو وہ سب سے بہترین کرتا ہے؟
زیادہ سے زیادہ وقت دیں
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں، ان سے باتیں کریں، انہیں اچھی اچھی باتیں بتائیں، جو علم اور معلومات آپ کے پاس ہیں وہ اپنے بچوں کو دیں کیونکہ بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے تو یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بچہ ہر بات جلدی سیکھ لیتا ہے اور اسے وہ باتیں ساری زندگی یاد رہتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھیلیں، اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں کیونکہ جب والدین اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں تو بچوں کو ایک بہت خوبصورت احساس محسوس ہوتا ہے۔
حوصلہ افزائی کریں
والدین کو چاہیے کہ بچوں کو نہ صرف خود وقت دیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ گھر میں سب بچوں کے ساتھ روزانہ مل کر کھیلیں۔ اگر آپکا بچہ اکلوتا ہے تو آپکو چاہیے کہ آپ مختلف موقع پر اپنے دوستوں اور اپنے خاندان والوں کو اپنے گھر پر بلائیں۔ کچھ بچوں کےاندر سماجی مہارت آسانی سے پیدا ہوجاتی ہے اور کچھ بچوں میں سماجی مہارت آسانی سے پیدا نہیں ہوپاتی ہے۔
اگر آپکے بچے باقی اور بچوں کے ساتھ آسانی سے گھلتے ملتے نہیں ہیں تو والدین کو چاہیے کہ انہیں وقت دیں ان پر زبردستی نہ کریں کہ وہ آپکے دوستوں اور خاندان والوں کے بچوں کے ساتھ کھیلیں، بلکہ آپ انہیں مختلف موقع پر بلاتے رہیں، کچھ وقت بعد بچے خود آہستہ آہستہ ان کے ساتھ گھلنے ملنے لگتے ہیں۔
ہر فرمائش پوری نہ کریں
بچپن میں بچے اپنے والدین سے بہت سی فرمائشیں کرتے ہیں۔ والدین کو بچوں کی خواہشات پوری کرنی چاہیے لیکن ہر خواہش نہیں اور نہ ہی ہر خواہش فورا پوری کرنی چاہیے۔اگر بچے کی ہر خواہش پوری کردی جائے تو وہ ہمیشہ یہی توقع کرتا ہے کہ اس کی ہر خواہش پوری ہوجائے گی اور پھر بچے کے اندر یہی عادت پیدا ہوجاتی ہے، جو آگے جا کر بچوں کے لیے بہت نقصان دہ ہوتی ہے خاص طور پر لڑکیوں کے لیے۔
اگر والدین لڑکیوں کی ہر خواہش پوری کردیں تو ان کے اندر صبر کا مادہ کم ہوجاتا ہے ۔ وہ اپنے سارے پیسے اپنی خواہشات کو پورا کرنے میں خرچ کر دیتے ہیں اور پھر اس طرح ان کو پیسے بچانے کی عادت نہیں پڑتی، جو ان کی ضرورت پڑنے پر ان کے کام آسکے۔خود اعتمادی زندگی میں کامیاب ہونے کی سب سے اہم چابی ہے۔لیکن ذاتی مثبت خیال اور صحت مند خود اعتمادی ہی ایک انسان کو کامیابیوں اور خوشیوں کی طرف لے کر جاسکتی ہے۔
بچے کی نفسیات سمجھنے کے 12 طریقے
والدین کی حیثیت سے آپ اپنے بچے کو پیدائش کے دن سے سمجھنا شروع کردیتے ہیں ۔ بلاشبہ ایک ذمہ دار والدین کی حیثیت سے یہ آپ کے لیے سب سے ضروری بات ہے۔ دانت کے درد کی تکلیف سے لے کر پیٹ کے درد تک اور نیپی بدلنے سے لے کر لڑکپن کے مسائل تک بچوں کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔بچوں کوسمجھنا ان کی بہتر پرورش کے لیے بہت ضروری ہے۔
آپکا بچہ خاص شخصیت کا حامل ہے اور یہ خصوصیت ساری زندگی اس کے ساتھ رہتی ہے۔ آپ کا رویہ بچے کی شخصیت کے مطابق ہو نہ کہ آپ اسکی شخصیت کو بدلنے کی کوشش کریں۔بچے کی نفسیات کو سمجھنا ایک صبر آزما کام ہے۔درج ذیل طریقوں سے آپ کو اپنے بچے کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم کر کے اسے سمجھنے میں مدد ملے گی :
1۔مشاہدہ کیجئے
بچے کی مصروفیات پر نظر رکھیں۔اس طرح آپ کو یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ آپ کا بچہ کیسے کھیلتا ہے کیسے کھاتا ہے اور کس طرح دوسروں سے بات چیت کرتا ہے۔ اس کی بہت سی خوبیوں سے آگاہی ہوگی۔مشاہدہ کیجئے کہ آیا آپ کا بچہ کسی تبدیلی میں جلد رچ بس جاتا ہے یا وقت لیتا ہے۔سارے بچے، ایک جیسی خوبیوں کے حامل نہیں ہوتے،یاد رکھئے ہر بچے کی الگ شخصیت ہوتی ہے۔
2۔دوست کی حیثیت سے پیش آئیں
بچے کے ساتھ دوست کی طرح پیش آئیں اس طرح آپ کا بچہ آپ کے بہت قریب آجاتا ہے لیکن ساتھ ہی کچھ حدود کا خیال رکھیں۔اگر وہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اسے مورد الزام ٹہرانے کے بجائے دوست کی حیثیت سے فیصلہ دیجئے۔
کیوں کہ اگر آپ والدین کی حیثیت سے فیصلہ کریں گے تو وہ قدرے مختلف ہوگا۔اور اس طرح آپ کا بچہ آپ سے کوئی بات شئیر نہیں کرے گا۔صرف یہی نہیں بلکہ اسے بھی موقع دیں کہ وہ آپ کی بات سمجھ سکے۔
3۔بچے کے ساتھ وقت گزاریں
بچے کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں تاکہ آپ اسکو اور اسکے دوستوں کو جان سکیں،اور وہ بھی آپ سے اپنے مسائل شیئر کرسکے۔آپ کتنے ہی مصروف ہوں اسے تھوڑا وقت ضرور دیں تاکہ اسے پتہ ہو کہ آپ اس کی مدد کےلیے موجود ہیں۔
4۔بچے کو ذمہ دار بنائیے
اپنے بچے کو کم عمری ہی سے اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں۔اگر وہ بغیر گرائے کپ میں دودھ نکالتا ہے،یا کھیلنے کے بعد اپنے کھلونے واپس ڈبے میں رکھتا ہے تو یہ اسکے ذمہ دار ہونے کی نشانی ہے اس کی حوصلہ افزائی کریں۔اسکی تعریف کیجئے۔تاکہ وہ اور زیادہ شوق سے اپنا کام خود کرے۔
5۔ بات سنئے
بچے کی بات رد کرنے کے بجائے غور سے سنیں اگر آپ اس سے متفق نہیں ہیں تواسے اپنے خیالات سے آگاہ کریں۔
6۔ الزام تراشی نہ کریں
اگر وہ کوئی غلطی کرتا ہے تواسے بتائیں کہ اس نے جو کیا وہ صحیح نہیں تھا۔لیکن آپ اب بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔بچے پر الزام تراشی سے گریز کریں۔
7۔ بچے کو پر اعتماد بنائیں
اس میں اعتماد پیدا کریں۔اگر اسکا اسکول میں پہلا دن ہے تو اس سے اسکول کے بارے میں پوچھیں،اس نے اسکول میں کیا پڑھا،اسے اپنا ٹیچر کیسا لگا،اس نے کوئی دوست بنایا یا نہیں۔اس کا اعتماد بڑھائیں تاکہ وہ دوست بنانے کے ساتھ نئے اسکول کا بہتر انداز میں سامنا کر سکے۔
8۔گھریلو معاملات میں اس کی رائے لیں
اگر آپ گھر کے معاملات میں بچے سے رائے لیتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو بہت اہم سمجھے گااور زیادہ ذمہ دار بن جائے گا۔گھر کی سیٹنگ ہو یاکمرے کو نئے سرے سے ترتیب دے رہے ہیں اس میں اپنے بچے کی رائے لیں اور اس میں چھپے منصوبے پر غور کریں بجائے اس کے کہ اس کی غلطیاں نکالیں۔اسطرح آپ کے بچے میں اعتماد پیدا ہوگااور قوت فیصلہ میں بھی اضافہ ہوگا۔
9۔بچے، کی ذاتی دلچسپیوں سے واقفیت رکھئے
بچے کی پرورش پر دھیان دینے کے ساتھ اس کی ذاتی پسندنا پسند سے بھی واقفیت ضروری ہے۔اپنے بچے، سے اس کے پسندیدہ مضمون،پسندیدہ کھیل اور ٹی وی پروگرام کے بارے میں بات کیجئے۔اسے اس کی پسندیدہ فلم دکھائیے یا اس کے ساتھ اس کا پسندیدہ کھیل دیکھئے۔اس طرح آپ کو اپنے بچے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
10 ۔اپنے وعدے پر قائم رہیں
اپنے بچےسے کئے ہوئے وعدے کو پورا کرکے آپ اس کا دل جیت لیں گے۔چاہے وہ ساحل سمندر پر جانے کا ہو یا سپر مارکیٹ کا،اپنے وعدے پر قائم رہئیے۔ اس طرح آپ کے بچے میں بھی ایمانداری بڑھے گی اور وہ وعدہ شناس ہوگا
11۔اسے آزادی دیجئے
ہر وقت اپنی مرضی چلانے کے بجائے اپنے بچے کو آزادی دیجئے ، اسکی پسند کے کام کرنے دیں لیکن اس کے قریب رہیں تاکہ وہ کوئی غلطی نہ کرے اور ضرورت پڑنے پر اس کی رہنمائی کریں۔
12۔بچے کو بچہ ہی رہنے دیں
بچے سے زیادہ امید نہ رکھیں ۔اگر وہ غلطی کرتا ہے تو اس سے بہت کچھ سیکھے گا۔اسے کسی کام سے روکنے کے بجائے احتیاط کرنا سکھائیں۔
خلاصہ سورۃ فجر، مفتی عتیق الرحمان شہید ؒ
ابتداء میں پانچ قسمیں کھا کر اللہ نے کافروں کی گرفت کرنے اور عذاب دینے کا اعلان کیا ہے پھر اس پر واقعاتی شواہد پیش کرتے ہوئے قوم عاد و ثمود و فرعون اور ان کی ہلاکت کا بیان ہے۔ پھر مشقت اور تنگی میں اور راحت و وسعت میں انسان کی فطرت کو بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آرام و راحت میں اترانے اور عُجب میں مبتلاء ہونے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس لائق تھا تبھی تو مجھے یہ نعمتیں ملی ہیں اور تکلیف اور تنگی میں اللہ کی حکمت پر نظر کرنے کی بجائے اللہ پر اعتراضات شروع کر دیتا ہے۔ پھر یتیموں اور مسکینوں کی حق تلفی اور حب مال کی مذمت کی ہے۔ اس کے بعد قیام قیامت اور اس کی سختی و شدت بیان کرنے کے بعد بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ فیصلہ کرنے لگیں گے، فرشتے صف بندی کر کے کھڑے ہو جائیں گے اور جہنم کو لا کر کھڑا کر دیا جائے گا اس وقت کافروں کو عقل آئے گی اور وہ نصیحت حاصل کرنے کی باتیں کریں گے جب وقت گزر چکا ہو گا اس وقت اللہ ایسا عذاب دیں گے کہ کوئی بھی ایسا عذاب نہیں دے سکتا اور مجرموں کو ایسے جکڑیں گے کہ کوئی بھی اس طرح نہیں جکڑ سکتا۔ اللہ کے وعدوں پر اطمینان رکھنے والوں سے خطاب ہو گا اپنے رب کی طرف خوش و خرم ہو کر لوٹ جاؤ اور ہمارے بندوں میں شامل ہو کر ہماری جنت میں داخل ہو جاؤ۔
http://kitaben.urdulibrary.org/Pages/KhulasaQuran.html
خلاصہ قرآن
پارہ بہ پارہ
مفتی عتیق الرحمٰن شہید
اللہ تعالی کی دوستی کا آغاز اورعلامت
سب سے بڑی نعمت ترکِ معصیت یعنی تقویٰ ہے۔ اس لیے اس نعمت پر شکر کرنا بھی سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ اس نعمت کے بغیر کوئی ولی اللہ نہیں بن سکتا، غیرمتقی کو اللہ کی دوستی مل ہی نہیں سکتی، جب تقویٰ کا آغاز ہوتا ہے، اسی وقت اللہ کی دوستی کا آغاز ہوتا ہے اور متقی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس سے کبھی گناہ ہی نہ ہو۔ متقی رہنا اتنا ہی آسان جتنا باوضو رہنا۔ اگر وضو ٹوٹ جائے تو پھر وضو کرلو۔ اگر گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کرکے پھر متقی بن جائو۔
اوّل تو کوشش کرنے سے ان شاء اللہ گناہ بالکل چھوٹ جاتے ہیں۔ جس کے دل میں اللہ آجاتا ہے اس کو گناہوں سے شرم آتی ہے۔ میرا شعر ہے ؎
جب تجلّی اُن کی ہوتی ہے دل برباد میں
آرزوئے ماسوا سے خود ہی شرماتا ہے دل
لیکن اگر باوجود کوشش کے پھر گناہ ہوجائے تو توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہے۔
{اِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَالم یُغَرْغِرْ او کما قال علیہ الصلٰوۃ والسلام}
جب تک موت کا غرغرہ نہ شروع ہوجائے اللہ بندے کی توبہ کو قبول کرتا ہے۔
بہرحال توبہ سے گناہوں کی معافی تو ہوجاتی ہے لیکن شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ گناہ کبھی نہ ہو اور طبیعت شریف بن جاتی ہے۔ جب دل میں وہ حقیقی شریف یعنی اللہ آجاتا ہے، پھر غیرشریفانہ حرکت سے خود شرم آتی ہے۔ جب تک دل میں اللہ نہیں آتا یعنی جب تک
اللہ تعالیٰ سے نسبت خاصہ حاصل نہیں ہوتی اس وقت تک گناہوں کے تقاضوں سے آدمی مغلوب ہوجاتا ہے لیکن جب دردِدل مستقل ہوجاتا ہے، اللہ سے نسبت مستقل قائم ہوجاتی ہے، تعلق مع اللہ علٰی سطح الولایۃ نصیب ہوجاتا ہے تو پھر آدمی گناہو ںسے کانپتا رہتا ہے اور اس غم میں گھلتا رہتا ہے کہ کہیں مجھ سے گناہ نہ ہوجائے۔
کتاب: حقیقت شکر .مواعظِ حسنہ:۴۰
خلاصہ سورۃ فاتحہ، مفتی عتیق الرحمان شہید ؒ
قرآن کریم کی ہر سورت کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کی گئی ہے اور حدیث شریف میں ہر اچھے اور مفید کام کو بسم اللہ پڑھ کر شروع کرنے کی تلقین کی گئی ہے جس میں نہایت لطیف پیرائے میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ کائنات کی ہر چیز کا وجود اللہ کی رحمتوں کا مظہر ہے، لہٰذا احسان شناسی کا یہ تقاضا ہے کہ منعم و محسن کے انعامات و احسانات سے فائدہ اٹھاتے وقت اس کے نام سے اپنی زبان کو ترو تازہ رکھا جائے۔
سورہ فاتحہ سات آیات پر مشتمل مکی سورت ہے۔ مفسرین کرام نے اس کے بہت سے نام شمار کرائے ہیں ۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں سورہ فاتحہ کے بائیس نام شمار کرائے ہیں ۔ عربی کا مقولہ ہے کثرت الاسماء تدل علی عظمۃ المسمی کسی چیز کے زیادہ نام اس کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں ۔ سورہ فاتحہ کے بہت سارے نام بھی اس مبارک سورت کی عظمتوں کے غماز ہیں ۔اہمیت کے پیش نظر اس سورت کے چند نام ہم ذکر کرتے ہیں ۔ اس کا مشہور نام سورۃ الفاتحہ ہے کیونکہ مصحف عثمانی کی ابتداء اس سورت سے ہوئی ہے۔ نیز نماز کی ابتداء بھی اسی سورت سے ہوتی ہے۔ اس کا نام ام الکتاب بھی ہے جس کا مطلب ہے قرآن کریم کی اساس اور بنیاد۔ قرآن کریم میں بیان کئے جانے والے مضامین و مقاصد کا خلاصہ اس چھوٹی سی سورت میں ذکر کر کے دریا کو کوزہ میں بند کر دیا گیا ہے۔ توحید و رسالت، آخرت، احکام شریعت اور قرآنی نظام کے وفاداروں کا قابل رشک انجام۔۔۔ اور اس کے باغیوں کا عبرتناک انجام یہ وہ پانچ مضامین ہیں جنہیں پورے شرح و بسط کے ساتھ قرآن کریم کی باقی ۱۱۳ سورتوں میں بیان کیا گیا ہے اور یہی مضامین معجزانہ انداز میں انتہائی اختصار کے ساتھ اس سورت میں بیان کر دیئے گئے ہیں ۔ اسی لئے اس سورت کو ام الکتاب اور اساس القرآن کہا گیا ہے۔ مفسرین کرام نے سورت الفاتحہ کو قرآن کریم کا مقدمہ یا پیش لفظ بھی کہا ہے۔ اس کے مضامین کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ہر نماز میں اس کی تلاوت کا حکم دیا تاکہ شب و روز میں کم از کم پانچ مرتبہ پورے قرآن کا خلاصہ ہر مسلمان کے ذہن میں تازہ ہوتا رہے۔ اس سورت کا ایک نام تعلیم المسئلۃ ہے کہ اس میں مانگنے کا ڈھنگ اور سلیقہ سکھایا گیا ہے کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ سے کیا مانگنا چاہئے اور کس طرح مانگنا چاہئے۔ یہ سورت الشفاء بھی ہے کہ روحانی و جسمانی امراض کے لئے پیغام شفاء ہے۔ سات مرتبہ پڑھ کر دم کرنے سے موت کے علاوہ ہر جسمانی مرض سے صحت حاصل ہوتی ہے اور اس کے مضامین پر عمل کرنے سے روحانی امراض سے شفا یابی ہوتی ہے۔
سورہ فاتحہ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے تمام کمالات اور خوبیوں کے اعتراف کے لئے حمد کا عنوان اختیار کیا گیا ہے اور تمام کائنات کی ربوبیت کو تسلیم کرنے کے لئے رب العالمین کی صفت کا بیان ہے، کیونکہ رب وہ ہوتا ہے جو کسی چیز کو عدم سے وجود میں لائے اور اس کی زندگی کے ہر مرحلہ میں اس کی تمام ضروریات پوری کرنے اور اس کی تربیت کے تمام وسائل مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کائنات کا وجود و عدم اس کی صنعت رحمت کا مرہونِ منت ہے۔ قیامت کے دن انسانی اعمال کی جزاء و سزا کا حتمی فیصلہ کرنے والا مالک و مختار وہی ہے۔ ہر قسم کی وفاداریوں کا مرکز اور مالی و جسمانی عبادات کا مستحق وہی ہے۔ ہر مشکل مرحلہ میں اسی سے مدد طلب کی جانی چاہئے۔ ہر کام کو اللہ تعالیٰ کی منشاء و مرضی کے مطابق سرانجام دینے کا سلیقہ ہدایت کہلاتا ہے۔ اس لئے بندہ صراط مستقیم کی ہدایت انبیاء و صدیقین و شہداء و صالحین جو اپنے خالق سے وفاداریوں کی بناء پر انعامات کے مستحق قرار پا چکے ہیں ان کے راستہ کی ہدایت، اپنے مالک سے طلب کرتا ہے اور قرآنی نظام کے باغی یہود و نصاریٰ اور ان کے اتحادیوں کے راستہ سے بچنے کی درخواست پیش کرتا ہے اور آخر میں آمین کہہ کر اس عاجزانہ درخواست کی قبولیت کے لئے نیاز مندانہ معروض پیش کرتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ بندہ جب سورہ فاتحہ ختم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’میرے بندے نے مجھ سے جو مانگا، میں نے اسے عطاء کر دیا۔‘‘ دوسری حدیث میں ہے کہ ’’امام جب نماز میں سورہ فاتحہ کی تلاوت ختم کرتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں ۔ تم بھی آمین کہا کرو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔‘‘
ایک حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’میں نے سورہ فاتحہ کو اپنے اور بندے کے درمیان تقسیم کر لیا ہے۔ آدھی سورہ فاتحہ میرے لئے ہے اور آدھی میرے بندے کے لئے ہے۔ جب بندہ الحمد ﷲ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں حمدنی عبدی میرے بندے نے میری حمد بیان کی جب الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اثنی علی عبدی میرے بندے نے میری ثنا بیان کی جب مالک یوم الدین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری عظمت و بزرگی کا اعتراف کیا۔ جب ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہذا بینی و بین عبدی یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے۔ جب بندہ اہدنا الصراط المستقیم سے آخر تک کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہذا العبدی والعبدی ماسأل یہ میرے بندہ کے لئے ہے اور میرے بندے نے جو مانگا ہے میں نے اسے عطاء کر دیا ہے۔
http://kitaben.urdulibrary.org/Pages/KhulasaQuran.html
خلاصہ قرآن
پارہ بہ پارہ
مفتی عتیق الرحمٰن شہید
حضرت والا کا چہرہ دیکھ کر عیسائی مسلمان ہوگیا
لوساکا،زمبیا کے سفر میں مولانا نذیر لونت صاحب کے مکان پر۴۲۳اھ مطابق ۳؍ مئی ۲۰۰۲ء بروز جمعہ بعد مغرب وعظ کے بعد میزبان کے عیسائی ڈرائیور نے کہا کہ مجھےاِن بزرگ (حضرت مرشدنا شاہ حکیم محمد اختر صاحب ) کے ہاتھ پر مسلمان کرادیں۔ مولانا نذیر لونت نے بتایا کہ یہ اردو بالکل نہیں سمجھتا۔ یہ حضرت کی تقریر سن کر ایمان نہیں لایا، حضرت والا کا چہرہ دیکھ کر مسلمان ہوا ہے۔ حضرت والا نے اس کو کلمہ پڑھا کر اپنے سینے سے لگالیا۔ حضرت والا کی شفقت سے اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔
حضرت والاجب جنوبی افریقہ تشریف لے گئے تو وہاں کے میزبان کے گھر جب پہنچے اورگاڑی سے باہر قدم رکھا تو میزبان کا عیسائی ملازم بھاگتا ہوا آیا اوراپنے مالک سے کہا کہ جس دین پر یہ بزرگ ہیں،مجھے اس دین پر کرادو ۔ میزبان نے ان سے پوچھا کہ تمہیں تو ان کی زبان بھی نہیں آتی نہ یہ معلوم ہے کہ یہ کس دین پر ہیں، پھر تم نے یہ کیوں کہا کہ جس دین پر یہ ہیں اس دین پر کرادو؟ملازم نے کہاکہ ان کا چہرہ بتارہا ہے کہ یہ شخص سچا ہے، اس کا دین بھی سچا ہوگا۔
کتاب: رشک ِاولیاء حیا تِ اختر
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ