Page 1
Standard

بلّی کے بچّے پر ظلم کرنے کا عذاب :: بحوالہ حدیث

حدیث نمبر۱۵۴ وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ فَرَأَيْتُ فِيهَا امْرَأَةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ تُعَذَّبُ فِي هِرَّةٍ لَهَا رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا وَرَأَيْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرٍ الْخُزَاعِيَّ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ سَيَّبَ السَّوَائِبَ» . رَوَاهُ مُسلم
(مسلم : کتاب الکسوف ص ۲۹۷، ج۱،شرح السنۃ ص ۳۸۲،ج۷، رقم(۴۰۷۹)

ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا پیش کی گئی میرے سامنے دوزخ کی آگ (یعنی شب معراج میں یا خواب میں یا بیداری میں ) میں نے اس میں بنی اسرائیل کی ایک عورت کو دیکھا جس کو ایک بلی کے معاملہ میں عذاب کیا جارہا ہے جس کو اس نے باندھ کر رکھا تھا نہ تو وہ اس کو کھانے کو دیتی تھی اور نہ اس کی رسی کھولتی تھی کہ وہ حشر الارض میں سے (چل پھر کر )کچھ کھا لے یہاں تک کہ وہ بلی بھوک سے مرگئی اورمیں نے عمربن عامرخزاعی کو دیکھا جو اپنی آنتوں کو دوزخ کی آگ میں کھینچ رہا تھا اور یہ سب سے پہلا شخص تھا۔جس نے سانڈ چھوڑنے کی رسم نکالی تھی۔

تشریح:پہلے زمانۂ جاہلیت میں رواج تھا کہ جو اونٹنی ہمیشہ مادہ جنتی یا کوئی مسافر دور دراز سے آتا یا کوئی بیمار شفاء پاتا تو اونٹنی آزاد کرتے اور اس کو چھوڑ دیتے ۔اس پر سواری نہ کرتے جہاں سے وہ چاہتی چرتی پانی پیتی اور اس عمل کو بت کے تقرب کا ذریعہ سمجھاجاتا ۔اس رسم کی ابتداء کرنے والا اور بنیاد رکھنے والا یہی عمرو بن عامر خزاعی ہے اور علماء نے لکھا ہے کہ بتوں کی پرستش کی ایجاد کرنے والا بھی یہی ہے ۔اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ بعض آدمی ابھی سے دوزخ میں ہیں اوربعض علماء نے کہا ہے کہ قیامت کے دن جو اس پرہونے والا ہے وہ حالت آپ پر منکشف کی گئی اور صورت اس کی دکھادی گئی ۔واللہ اعلم

کتاب: رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت .
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

Standard

حدیث نمبر ۱۸۴ کتاب: رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت

حدیث نمبر ۱۸۴ وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ (وَأَنْذِرْ عشيرتك الْأَقْرَبين)دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرَيْشًا فَاجْتَمَعُوا فَعَمَّ وَخَصَّ فَقَالَ: «يَا بَنِي كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ يَا بَنِي مُرَّةَ بْنِ كَعْبٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ. يَا بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ من النَّار يَا بني عبد منَاف أَنْقِذُوا أَنفسكُم من النَّار. با بَنِي هَاشِمٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ. يَا بني عبد الْمطلب أَنْقِذُوا أَنفسكُم من النَّار. يَا فَاطِمَةُ أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّ لَكُمْ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا» . رَوَاهُ مُسْلِمٌوَفَى الْمُتَّفَقِ عَلَيْهِ قَالَ: «يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا. وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا»
(بخاری : کتاب التفسیر سورۃ الشعراء ص ۷۰۲،ج۲)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی وانذرعشیرتک الاقربین اےنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ! آپ ڈرائیے اپنے کنبہ کے لوگوں کو جو بہت قریب کے ہیں )تو نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قریش کو بلایا ۔جب وہ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خطاب میں تعمیم کی اور تخصیص بھی (یعنی ان کے جد بعید کا نام لے کر بھی مخاطب کیا تاکہ سب کو عام و شامل ہو جائے اور ان کےجد قریب کا نام لے کر بھی مخاطب کیا تاکہ بعض کے ساتھ مخصوص ہو جائے)چناچہ آپ نے فرمایا اے کعب بن لوی کی اولاد !اپنی جانوں کی دوزخ کی آگ سے بچائو ۔اے عبد شمس کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو ۔اے عبد مناف کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو ۔اے ہاشم کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو ۔اے عبدالمطلب کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو۔

اے فاطمہ اپنی جان کو آگ سے بچا۔اس لیے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں (یعنی میں کسی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا )البتہ مجھ پر تمہارا قرابت کا حق ہے جس کو میں قرابت کی تری سے تر کرتا ہوں ۔

اور بخاری و مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا اے قریش کی جماعت ! اپنی جانوں کو خریدلو (یعنی ایمان لاکر اور طاعت و فرماں برداری کر کے دوزخ کی آگ سے اپنے آپ کو بچالو )میں تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب میں سے کچھ بھی دور نہیں کر سکتا اور اے عبد مناف کی اولاد! میں تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا ۔اے عباس ابن عبدالمطلب ! میں تم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دفع نہیں بچا سکتا ۔

اور اے رسول اللہ کی پھوپھی صفیہ! میں تم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچاسکتا۔اور اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ! میرے مال میں سے جو کچھ تو چاہے مانگ لے لیکن میں تجھ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا ۔

تشریح:اس حدیث سے امت کو یہ سبق ملتا ہے کہ جب سید الانبیاءصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو محنت کی طرف متوجہ کیا گیا تو آج کس احمق و نادان کا منہ کہ پیروں یا اولیاء کی سفارش پر یا خود سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفاعت کے بھروسہ پر یا حق تعالیٰ شانہ کی رحمت کے بھروسے پر گناہوں اور سرکشی پرجری اور گستاخی ہو اور نیک اعمال سے بے پروا ہو ۔خود سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جو حق تعالیٰ شانہ کے لاڈلے اورمحبوب رسول ہیں اور ایسے محبوب ہیں جو آپ کے نقش قدم کی اتباع کرے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو جاوے کس قدر عبادت فرماتے تھے کہ طولِ قیام سے پائوں مبارک میں ورم آجاتا تھا ،تعجب ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی شان رحمت پر بھروسہ کا پر فریب دعویٰ کرکے نیک اعمال سے کاہل اورگناہوں میں چست و چالاک بنے ہیں یہی لوگ حق تعالیٰ کی دوسری صفت رزّاقیت پر بھروسہ کرکے گھر میں نہیں بیٹھتے بلکہ روزی کے لیے مارے مارے سرگرداں و پر یشاں در بدر چکّر کاٹتے ہیں اور کس کس خاک آستاں کو بوسہ دیتے ہیں اور آخرت کے معاملہ میں اپنی غفلت اور کاہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے توکّل کا سہارالیتے ہیں یہ کیسا توکّل ہے کہ ایک صفت پر توکل ہو اور دوسری صفت پر توکل نہ ہو تو یہ توکل تو اپنے مطلب کاتوکل ہوا؎
مصطفٰے فرمودہ با واز بلند
بر توکّل زانوئے اشتربہ بند
حضرت مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ کو رسی سے باندھ دو پھر توکل اللہ تعالیٰ پر کرو رسی پر توکل نہ کرو۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تدبیر کو چھوڑ توکل نہیں بلکہ تدبیر کرکے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا اور تدبیر پر بھروسہ نہ کرنے کا نام اصل توکل اور صحیح توکل ہے۔پس آخرت کے لیے بھی اعمال صالحہ اختیار کرے اور گناہوں سے بچنے کی تکالیف کو برداشت کرے اور پھر مغفرت کے لیے اپنے ان اعمال پر بھروسہ نہ کرے بلکہ حق تعالیٰ کی رحمت پر بھروسہ کرے۔
حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اُوْلئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللہِ ط (سورۃ البقرۃ پارہ ۲،آیت ۲۱۸)یہ وہ لوگ ہیں جواللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہیں اس کلام ربّانی سے بھی معلوم ہوتا ہےایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید پیدا ہوتی ہے اور نافرمانی پر اصرار اور توبہ نہ کرنے سے اس امیداور نورِ ایمان میں کمزوری پیداہوتی ہے۔

کتاب: رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت .
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

Standard

حدیث نمبر۱۵۳ کتاب: رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت

حدیث نمبر۱۵۳ وَعَنْ أُمِّ الْعَلَاءِ الْأَنْصَارِيَّةِ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ لَا أَدْرِي وَاللَّهِ لَا أَدْرِي وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَا يُفْعَلُ بِي وبكم» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
(کتاب الشھادات باب القرعۃ فی المشکلات ص ۳۶۹،ج۱)

ترجمہ:حضرت ام العلاء انصاریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میں اگرچہ اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں لیکن اللہ کی قسم یہ نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا (معاملہ)کیا جائے گا اور تمھارے ساتھ کیا (معاملہ) کیاجائے گا)

تشریح:یہ حدیث اس وقت وارد ہوئی جب حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو کبائر مہاجرین صحابہ میں سے تھے انتقال ہوا اور جنت البقیع میں حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی موت کے بعد ان کی پیشانی کا بوسہ دیا اور آنسوبہائے اور بہت عنایات فرمائیں ۔ایک عورت جو وہاں حاضر تھی کہا کہ اے ابن مظعون بہشت تجھ کو مبارک ہو کہ عاقبت تیری بخیر ہے پس آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس عورت کر زجر وتنبیہ فرمائی کہ غیب کے فیصلوں پر ایسے یقین کے ساتھ دعویٰ کرنا اور پھر رو برو پیغمبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ایسی جرأت سے بولنا بے ادبی اورنادانی ہے اور حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اپنے متعلق یہ فرمانا کہ میں نہیں جانتاکہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہو گا یہ دراصل آپ کا غلبۂ استحضار عظمت و کبریائی حق سے راہ ادب اختیار کرنا ہے اور حقیقت کلام کی مراد نہیں یا یہ مراد ہو کہ عاقبت کا حال تفصیل کے ساتھ معلوم نہیں اگرچہ مجملاً آپ کو علم تھا کہ عاقبت جملہ انبیاء علہیم السلام کی بخیر ہے یا مراد ہو کہ میں نہیں جانتا موت سے مروں گایا قتل سے اور نہیں جانتا میں کہ تم پر اگلی امتوں کی طرح سے عذاب نازل ہو گا یانہیں اور حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اس آیت کے نزول سے قبل ہے لِیَغْفِرَلَکَ اللہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَاتَاَخَّرْ (سورۃ الفتح پارہ ۲۶،آیت ۲)اس آیت کے نزول کے بعد آپﷺ کو یقین ہوا کہ عاقبت بخیرہے کذاقیل واللہ اعلم۔(مرقات ص۱۹۸،ج۹)

کتاب: رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت .
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

Standard

​پیر کی تعریف یہ ہے کہ وہ پیروی کرتا ہو حضور ﷺ کی!

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
{وَاِذَاسَئَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَاسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ}

اے میرے نبیﷺ کے صحابہ! جن کے دور میں جبرئیل علیہ السلام کی آمدو رفت ہورہی ہے اور جن کے سامنے نبی پر قرآن اُتر رہا ہے اور سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں جن کی تربیت ہورہی ہے اُن سے اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ جب تم ہمارے نبی کی بیویوں سے سوال کرو، یا بازار سے سودا سلف لانے کے لیے کچھ پوچھنا ہو تو پردہ کے باہر سے پوچھو، دیکھو اندر مت جائو۔ کیوں صاحب! صحابہ سے بڑھ کر کون پاک ہوسکتا ہے، اُن سے تو پردہ کرایا جارہا ہے اور نبی کی بیبیاں اتنی پاک ہیں کہ اُمت کی مائیں ہیں جہاں قرآن نازل ہورہا ہے، جس گھر میں جبرئیل علیہ السلام آرہے ہیں ایسا پاک اور پیارا گھرانہ وہاں پر تو پردہ ہو اور آج کا پیر کہے کہ ارے مولویوں کے چکر میں مت پڑو، مرد بھی بیٹھے ہیں عورتیں بھی ساتھ بیٹھی ہوئی ہیں اور قوالی ہورہی ہے اور حال بھی آرہا ہے۔

ایک شخص لالوکھیت کے ایک پیر سے مرید تھا۔ وہاں قوالی ہوتی تھی، مسجد میں نماز کی جماعت ہورہی ہے اور وہاں قوالی ہورہی ہے۔ کوئی مسجد میں جماعت نہیں گیا۔ یہ کیا بات ہے کہ نماز اور روزہ چھڑا کر طبلہ بجوایا جارہا ہے، گویا نعوذ باللہ طبلہ عبادت ہے۔ ذرا سوچو کہ تمہارے نبی نے بھی کبھی طبلہ بچایا ہے؟ ہمیں کسی حدیث میں دکھلائو، سب سے پہلے میں تم سے طبلہ بجوادوں گا۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے زندگی میں کبھی طبلہ بجایا ہوتا، سارنگی بجائی ہتی، قوالی ہوئی ہوتی، لوگ اُچھلے کودے ہوتے تو بخاری شریف اور احادیث کی دوسری کتابوں میں سب آجاتا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم اس دین کے ذمہ دار ہیں، اس دین میں کوئی ملاوٹ نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے قرآن نازل کیا ہے اور اس کی حفاظت میرے ذمہ ہے۔ توریت اور انجیل کی بات چھوڑدئیے، سابقہ آسمانی کتابوں کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے نہیں لیا تھا، وہ پہلی اُمتوں کے علماء کے ذمہ کیا تھا وہ پیٹو بن گئے اور آسمانی کتابوں کو بیچنے لگے اور تحریف کردی لیکن قرآن پاک کی حفاظت مع احادیث کے اللہ نے اپنے ذمہ لی ہے، لہٰذا ان ​​
جاہل پیروں کے کہنے سے طبلہ سارنگی دین نہیں ہوجائے گا۔ دین قیامت تک وہی رہے گا جو اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں۔ جو حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے دین پر نہیں چلتا اُس کو اصلی نہ سمجھو۔ ​​

پیر کی تعریف یہ ہے کہ وہ پیروی کرتا ہو حضور صلی الہ علیہ والہٖ وسلم کی، جو آپ کے نقش قدم پر چلتا ہو۔ اور بے پردہ عورتوں سے بے محابا ملتا ہو وہ ہر گز پیر نہیں، بدمعاش ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے جب صحابیات سے، نامحرم عورتوں سے پردہ کیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے غلام پردہ نہ کریں، یہ غلام ہی نہیں ہے، نالائق غلام ہے، نافرمان غلام ہے۔ جو لڑکیوں سے، عورتوں سے پردہ نہ کرے وہ پِیر نہیں پَیر ہے۔ قیامت کے دن صرف حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی غلامی کام آئے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے نقش قدم کام آئیں گے۔ آپ کے نقش قدم ہی جنت تک لے جانے والے ہیں۔ میرا شعر ہے ؎

نقشِ قدم نبی​ﷺ​کے ہیں جنت کے راستے
اللہ(ج) سے ملاتے ہیں سنت کے راستے

​کتاب: اصلی پیری مریدی کیا ہے؟ .مواعظِ حسنہ:۵۸ ​
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

Standard

ایک جعلی پیر کے فریب کا واقعہ

بندر پر ایک واقعہ یاد آیا کہ بلوچستان میں ایک جعلی پیر نے ایک شخص سے کہا کہ تم مجھے دس ہزار روپیہ دے دو اور میرے یہاں کرسی میز لگادو تو تم جس پوسٹ پر ہو میں اس سے ترقی کی تعویذ دبادوں گا اور تم کو ترقی مل جائے گی۔ وہ بے چارہ بے وقوف تھا۔ بعد میں تو لُٹ لٹاکر پٹ پٹاکر میرے پاس آیا۔ دس ہزار دے دیا اور اس کے بعد جس پوسٹ پر تھا اس سے اور نیچے گرگیا۔ اس نے جعلی پیر سے کہا کہ تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیا، میرا دس ہزار واپس کرو تو اس نے کہا کہ میں نے جو تم کو ایک وظیفہ دیا تھا تو میں نے ایک شرط لگائی تھی کہ جب یہ وظیفہ پڑھنا تو بندر کا خیال مت کرنا۔ قرآن سر پر رکھ کر سچ سچ بتائو کہ تم کو بندر کا خیال آیا تھا کہ نہیں؟ اس نے کہا کہ اگر تم منع نہ کرتے تو کبھی خیال نہ آتا۔ ظالم تیرے منع ہی کرنے سے جب میں نے تسبیح پکڑی اور سامنے بندر۔ اگر آپ کسی کو منع نہ کریں تو زندگی بھر کسی کو خیال نہیں آئے گا لیکن اگر آپ اس کو بتادیں کہ یہ وظیفہ پڑھتے وقت بندر کا خیال نہ کرنا تو ضرور آئے گا۔ تو یہ جعلی پیر اس طرح ٹھگتے ہیں کہ قصور اسی کا کردیا کہ تم نے چونکہ بندر کا خیال کیا اس لیے وظیفہ نے اثر نہیں کیا۔

حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

کتاب: نورِ ہدایات اور اس کی علامات ۔ حصہ اوّل .مواعظِ حسنہ:۲۵

Standard

JANG has published article ”Tawakkul’

From: Najeeb Qasmi <najeebqasmi>

Date: Sat, Jul 7, 2018 at 7:21 AM

On 06-07-2018, Pakistan’s famous Urdu Newspaper "JANG" has published article ”Tawakkul” in Friday’s special edition​.​

​(attached)​

Dr. Mohammad Najeeb Qasmi
New Delhi
0091 7017905326

signature.gif?u=380741&e=27383220&v=fa17a9da6aa76d7a08410b76254590335f2210f0126ab5e4df4181b8c7238b8f

Standard

حدیث: انسان کا دل ہر جنگل میں ایک شاخ ہے

ترجمہ: حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کا دل ہر جنگل میں ایک شاخ ہے (یعنی اس کو ہر طرح کی فکریں ہیں )پس جس شخص نے اپنے دل کو ساری شاخوں کی طرف متوجہ رکھا (یعنی ہر قسم کی فکروں میں مشغول و منہمک رہا) اللہ تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا خواہ کسی جنگل میں اس کو ہلاک کردے اورجس نے اللہ تعالیٰ پر توکل کیا اور اپنے کاموں کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا اللہ تعالیٰ اس کے تمام کاموں کو درست کر دیتاہے ۔

(رَوَاهُ ابْن مَاجَه)
(باب التوکل و الیقین ص ۳۰۷)

تشریح:اس حدیث پر عمل کرنے والوں کی زندگی نہایت پرسکون ہوتی ہے۔ حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں کہ اولیاء اللہ کے قلوب میں جو چین اور اطمینان ہے سلاطین کو خواب میں بھی میسر نہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ دولت عطا فرمائیں ۔آمین

ماخود: حضور ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت
تالیف: حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

Standard

Hadith: Is there really nothing in your house?

Hadith: Sayyidina Anas [radhiallaahu anhu] reports that a certain ansari once came to Rasulullah [صلى الله عليه وسلم] and begged him for something.

Rasulullah [صلى الله عليه وسلم] asked him, "Is there really nothing in your house?"

He replied. "Yes, sire there is a hessian bag, one part of which I wear and the other part I spread when I retire to sleep, and a cup which I use for drinking water."

Rasulullah [صلى الله عليه وسلم] said; "Bring both to me." He brought the articles.

Rasulullah [صلى الله عليه وسلم] took them and exclaimed, "Who will buy these from me?" A man replied, "I shall buy them both for one dirham" Rasulullah [صلى الله عليه وسلم] asked twice or thrice, "Who will give me more?" A man finally said: "I shall buy them both for two dirhams."

Thereupon Rasulullah [صلى الله عليه وسلم] gave the goods to him and gave the two dirhams to the ansari and said: "Buy food with the one dirham and feed your family and buy with the other an axe and bring it to me." The ansari brought the axe.

Rasulullah [صلى الله عليه وسلم] took it and with his own mubarak hands fitted the handle to it, and said: "Go! Cut wood and sell and let me not see you for 15 days."

The man did as he was told and came (again) after 15 days with 10 dirhams, with some of it he bought clothes and with the other he bought food.

Rasulullah [صلى الله عليه وسلم] said to him: "This is better for you than that you shall appear on the day of Qiyaamat with a mark on your face to indicate that you were a beggar."

Source: http://askimam.org/public/question_detail/15801
From “The Book of Wealth” By Ml. Moosa Olgar