Page 1
Standard

کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا!

ترجمہ اور تفسیر
معارف القرآن، مفتی محمد شفیع صاحب رح

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْهِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا 27؀

اور جس دن ظالم انسان (حسرت سے) اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھائے گا، اور کہے گا : کاش میں نے پیغمبر کی ہمراہی اختیار کرلی ہوتی۔

يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا
ہائے میری بربادی ! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔

(25:28)

یہ آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے مگر حکم عام ہے واقعہ یہ تھا کہ عقبہ ابن ابی معیط مکہ کے مشرک سرداروں میں سے تھا اس کی عادت تھی کہ جب کسی سفر سے واپس آتا تو شہر کے معزز لوگوں کی دعوت کرتا تھا اور اکثر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ملا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ حسب عادت اس نے معززین شہر کی دعوت کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی بلایا۔ جب اس نے آپ کے سامنے کھانا رکھا تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہارا کھانا اس وقت تک نہیں کھا سکتا جب تک تم اس کی گواہی نہ دو کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اس کا کوئی شریک عبادت میں نہیں ہے اور یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ عقبہ نے یہ کلمہ پڑھ لیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرط کے مطابق کھانا تناول فرمایا۔

عقبہ کا ایک گہرا دوست ابی بن خلف تھا جب اس کو خبر لگی کہ عقبہ مسلمان ہوگیا تو یہ بہت برہم ہوا۔ عقبہ نے عذر کیا کہ قریش کے معزز مہمان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے گھر پر آئے ہوئے تھے اگر وہ بغیر کھانا کھائے میرے گھر سے چلے جاتے تو میرے لئے بڑی رسوائی تھی اس لئے میں نے ان کی خاطر سے یہ کلمہ کہہ لیا۔ ابی بن خلف نے کہا کہ میں تیری ایسی باتوں کو قبول نہیں کروں گا جب تک تو جا کر ان کے منہ پر نہ تھوکے۔ یہ کمخبت بدنصیب دوست کے کہنے سے اس گستاخی پر آمادہ ہوگیا اور کر گزرا، اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی ان دونوں کو ذلیل کیا کہ غزوہ بدر میں دونوں مارے گئے (بغوی) اور آخرت میں ان کے عذاب کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے کہ جب آخرت کا عذاب سامنے دیکھے گا تو اس وقت ندامت و افسوس سے اپنے ہاتھ کاٹنے لگے گا اور کہے گا کاش میں فلاں یعنی ابی بن خلف کو دوست نہ بناتا۔ (مظہری و قرطبی)

غلط کار اور بےدین دوستوں کی دوستی قیامت کے روز حسرت و ندامت کا باعث ہوگی :

تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ آیات اگرچہ خاص عقبہ کے واقعہ میں نازل ہوئی تھیں لیکن جیسا کہ الفاظ آیت کے عام ہیں حکم بھی عام ہے اور شاید اس جگہ اس دوست کے نام کی بجائے قرآن میں فلانا کا لفظ اسی عموما کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔ ان آیات نے یہ بتلایا ہے کہ جو دو دوست کسی مصیبت اور گناہ پر جمع ہوں اور خلاف شرع امور میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے ہوں ان سب کا یہی حکم ہے کہ قیامت کے روز اس گہرے دوست کی دوستی پر روئیں گے۔

مسند احمد، ترمذی، ابو داؤد وغیرہ نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، لا تصاحب الا مومنا ولا یا کل مالک الا تقی (مظہری) کسی غیر مسلم کو اپنا ساتھی نہ بناؤ، اور تمہارا مال (بطور دوستی کے) صرف متقی آدمی کھائے، یعنی غیر متقی سے دوستی نہ کرو،

اور ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
المرء علی دین خلیلہ فلینظر من یخالل (رواہ البخاری)
" ہر انسان (عادةً ) اپنے دوست کے دین اور طریقہ پر چلا کرتا ہے اس لئے دوست بنانے سے پہلے خوب غور کرلیا کرو کہ کس کو دوست بنا رہے ہو "۔

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ ہمارے مجلسی دوستوں میں کون لوگ بہتر ہیں تو آپ نے فرمایا :
من ذکر کم باللہ رویتہ وزاد فی علمکم منطقہ وذکرکم بالاخرة عملہ رواہ البزار (قرطبی)
" وہ شخص جس کو دیکھ کر خدا یاد آئے اور جس کی گفتگو سے تمہارا علم بڑھے اور جس کے عمل کو دیکھ کر آخرت کی یاد تازہ ہو "۔

signature.gif?u=380741&e=33271909&v=434d6f0d6c7f069a2edaebc8f95e639836638c960eca29140e526ab1718bc1ec

Standard

شکر ہے تیرا خدایا میں تو اس قابل نہ تھا


To listen audio from website, click here.

کلام: حضرت سید نفیس حسینی شاہ صاحب رحمہٓ اللہ علیہ
آواز: مولانا انس یونس صاحب

شکر ہے تیرا خدایا میں تو اس قابل نہ تھا۔۔
تو نے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا۔۔

اپنا دیوانہ بنایا میں تو اس قابل نہ تھا۔۔
گرد کعبے کے پھرایا میں تو اس قابل نہ تھا۔۔

مدتوں کی پیاس کو سیراب تو نے کر دیا۔۔
جام زم زم کا پلایا میں تو اس قابل نہ تھا۔۔

بھا گیا میری زباں کو ذکر ” الا اللہ ” کا۔۔
یہ سبق کس نے پڑھایا میں تو اس قابل نہ تھا۔۔

خاص اپنے در کا رکھا تو نے اے مولا مجھے۔۔
یوں نہیں در در پھرایا میں تو اس قابل نہ تھا۔۔

میری کوتاہی کہ تیری یاد سے غافل رہا۔۔
پر نہیں تو نے بھلایا میں تو اس قابل نہ تھا۔۔

میں کہ تھا بے راہ تو نے دستگیری آپ کی۔۔
تو ہی مجھ کو راہ پہ لایا میں تو اس قابل نہ تھا۔۔

تیری رحمت تیری شفقت سے ہوا مجھ کو نصیب۔۔
گنبدِ خضرا کا سایہ میں تو اس قابل نہ تھا۔۔

بارگاہِ سیدِ کونین ّ میں آ کر نفیس۔۔
سوچتا ہوں کیسے آیا میں تو اس قابل نہ تھا۔۔

Note: A part of great memory when our Ammi went to Hajj. Audio contains a good amount of echo/reverb but still understandable.

Standard

حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے جذب کا واقعہ

سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے واقعہ سے شروع کروں گا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو کیسے جذب فرمایا۔
صدیق اکبر سولہ سال کے ہیں۔ سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم اٹھارہ سال کے ہیں۔ ایک نبی کی جوانی ایک صدیق کی جوانی، دونوں بزرگوں کی دوستی شروع ہوتی ہے۔ مکہ شریف میں دونوں کی روزانہ ملاقات ہوتی ہے، ایک باربہ ضرورت تجارت حضرت ابوبکر صدیق شام تشریف لے گئے۔ وہاں جا کر ایک خواب دیکھا اور وہاں کہ ایک راہب سے اپنا وہ خواب بیان کیا ۔راہب نے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو۔ فرمایا کہ مکہ شریف سے ۔ پوچھا کہ کیا کام ہے؟ فرمایا تاجر ہوں، تجارت کے لیے آیا ہوں پوچھا کس قبیلے سے ہو؟ فرمایا قریش مکہ ہوں۔ راہب نے کہا اس خواب کی تعبیر سنو۔ اس کی تعبیر یہ ہے کہ عنقریب تمہارے شہر میں ایک پیغمبر آنے والا ہے ’’یُبْعَثُ نَبِیٌّمِنْ قَوْمِکَ‘‘تمہاری قوم سے ایک پیغمبر مبعوث ہوگا۔ ’’تَکُوْنُ وَزِیْرَہٗ فِی حَیَاتِہٖ وَخَلِیفَتَہٗ بَعْدَ وَفَاتِہٖ‘‘تم اس کے زمانہ حیات میں اس کے وزیر رہوگے اور اس کی وفات کے بعد اس کے پہلے خلیفہ بنوگے۔’’فَاَسَرَّھَا اَبُوْبَکْرٍ مِنَ الْکَائِنَاتِ کُلِّہَا‘‘ حضرت ابو بکر صدیق نے یہ خواب کسی کو نہیں بتایا نہ اپنی بیوی سے نہ بچوں سے نہ اپنے دوستوں سے یہاں تک حضرت ابوبکر صدیق ۳۸؍ سال کے ہوگئے اور سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم چالیس سال کے ہوگئے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم غار حرا میں نبوت سے مشرف ہوئے۔ اقرأ نازل ہوئی اور سارے مذاہب کی کتابیں اسی وقت منسوخ کر دی گئیں ؎

یتیمے کہ نا کردہ قرآں درست
کتب خانۂ ہفت ملت بشست

جس یتیم بچہ نے ابھی قرآن کو مکمل نہیں کیا، جس پر ابھی قرآن پورا نازل نہیں ہوا، صرف ’’اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ‘‘ کی آیت نازل ہوئی کہ سارے مذاہب کے کتب خانے اور ساری کتابیں منسوخ ہوگئیں۔ توریت منسوخ ہوگئی، زبور منسوخ ہوگئی، انجیل منسوخ ہوگئی۔

آپ نے اعلان کیا کہ اے ابوبکر! میں نبی ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل کی ہے۔ عرض کیا یا محمد! ابھی ایمان نہیں لائے تھے ۔لیکن ہم سب لوگ درود شریف پڑھیں گے۔ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ’’یَا مُحَمّدُ مَا الدَّلِیْلُ عَلٰی مَا تَدَّعِیْ‘‘جس چیز کا آپ دعویٰ کر رہے ہیں اس کی آپ کے پاس کوئی دلیل ہے۔پُرانا دوستانہ تھا اور دوستی میں آدمی بے تکلفی سے پوچھ لیتا ہے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے ابوبکر جو دعویٰ نبوت کا میں کر رہا ہوں اس کی دلیل:
(( اَلرُّؤْیَا الَّتِیْ رَأَیْتَ بِالشَّامِ))
(خصائص کبرٰی،ج:۱،ص:۲۹)

تیرا وہ خواب ہے جو تو نے شام میں دیکھا تھا حالانکہ انہوں نے اس خواب کو سارے عالم سے چھپایا تھا۔ حضرت صدیق اکبر سمجھ گئے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نبی ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی ہے کہ ابوبکر نے کیا خواب دیکھا تھا اور در اصل اس طرح جان صدیق کو اپنی طرف اﷲ تعالیٰ نے جذب کیا کہ پہلے ہی ان کو خواب میں دکھا دیا تھا۔ اسی کو کہتے ہیں ؎
نہ میں دیوانہ ہوں اصغر نہ مجھ کو ذوق عریانی
کوئی کھینچے لیے جاتا ہے خود جیب و گریباں کو

اس امت مسلمہ میں یہ سب سے پہلا جذب حضرت صدیق اکبر کو نصیب ہوا۔ اﷲ تعالیٰ کی صفتِ جذب، تجلیات اجتبائیہ کی شعاعیں سب سے پہلے جان صدیق پر پڑیں اور اس نعمت سے اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے ان کو مشرف فرمایا۔ اس وقت اپنے خواب کی تکمیل سے اور اﷲ تعالیٰ کی رحمت کو دیکھ کر مارے خوشی کے بے اختیار سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے لپٹ گئے۔’’فَعَانَقَہٗ‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے معانقہ کرلیا۔ اس وقت مقام انس میں تھے۔ دونوں روحیں ایک دوسرے کی عارف تھیں۔ یہ وہ مبارک روحیں ہیں کہ دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بھی ان کی قبریں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب ہیں اور جہاں سے مٹی اُٹھائی جاتی ہے وہیں دفن ہوتی ہے یہ دلیل ہے اس بات کی کہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا جسم مبارک جس مٹی سے تعمیر ہوا وہیں قریب کی مٹی سے ان حضرات یعنی حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہما کی تعمیر ہوئی ہے۔ پس حضرت صدیق اکبر نے معانقہ کر کے ’’قَبَّلَ مَا بَیْنَ عَیْنَیْہِ‘‘حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوںکے درمیان پیشانی مُبارک کا بوسہ لیا اور کلمۂ شہادت پڑھا۔ یہ وہ شخصیت ہے کہ جس نے بوقت اسلام پیشانی نبوت کا بوسہ لیا اور جب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم دنیا سے تشریف لے گئے اس وقت بھی انہوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک کا بوسہ لیا۔

کتاب: تجلیات جذب (حصہ اوّل) .مواعظِ حسنہ:۱۱
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

http://books.hazratmeersahib.com/book/309/tajliyate-jazb.html

Standard

ماں باپ کو ستانے کا وبال

ایک شخص کو اپنی بیوی پر غصہ آیا تھا۔ سالن میں نمک تیز کردیا تھا لیکن پھر اسے اللہ یاد آیا اور دل میں کہا کہ اسے کچھ نہیں کہوں گا۔ دل ہی دل میں اللہ سے سودا کرلیا کہ اے اللہ اے اللہ یہ آپ کی بندی ہے۔ میری بیوی تو ہے لیکن آپ کی بندی بھی ہے۔ بس یہی چیز لوگ یاد نہیں رکھتے۔ وہ سمجھتے ہیںکہ صرف میری بیوی ہے،یہ یاد رکھا کیجیے کہ خدا تعالیٰ کی بندی ہے۔ اللہ آسمان سے دیکھ رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی زیادتی ہوجائے۔ جنہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی میں نے دیکھا ہے کہ ایسے ظالموں کا بہت برا حشر ہوا۔ اکثر کو دیکھا کہ فالج ہوگیا۔ پڑے پڑے ہگ رہے ہیں اور کسی مصیبت میں مبتلا ہوگئے۔ ظلم کی سزا بہت خطرناک ہوتی ہے۔

لہٰذا اس نے معاف کردیا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے ان کو خواب میں دیکھا۔ پوچھا کہ بھائی تمہارے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک دن تمہاری بیوی سے کھانے میں نمک تیز ہوگیا تھا۔تم کوغصہ تو بہت آیا تھا لیکن تم نے مجھ کو خوش کرنے کے لیے اسے معاف کردیا تھا میری بندی سمجھ کر۔ اس کے بدلہ میں آج میں تم کو معاف کرتا ہوں۔ آہ! اگر اس کو کوئی معمولی شخص بیان کرتا تو اتنا اثر نہ ہوتا۔ حکیم الامت مجدّد الملّت جیسے اللہ والے عالم نے اس قصہ کو اپنے وعظ میں بیان فرمایا لہٰذا اپنے بال بچوں، اپنی بیویوں اپنے رشتہ داروں اور اپنے ماں باپ کے معاملہ میں ہوشیار ہوجائے۔ خصوصاً ماں باپ کے معاملہ میں تو بہت ڈرتے رہیے۔ کبی ان سے بڑبڑ مت کیجیے۔ ماں باپ کی بددعا تو ایسی لگی ہے کہ دنیا میں بغیر عذاب چکھے کوئی مر نہیں سکتا۔

مشکوٰۃ کی حدیث ہے کہ جس نے ماں باپ کو ستایا اسے موت نہ آئے گی جب تک دنیا میں اس پر عذاب نازل نہ ہوجائے۔ (مشکوٰۃ: ص ۴۲۱)

بمبئی میں مجھے ایک صوفی صاحب ملے۔ اللہ والے شخص تھے لیکن غلطی ہوگئی۔ بیوی اور ماں میں لڑائی ہورہی تھی۔ اس نے بیوی کا پارٹ لے کر ماں کو کچھ جھڑک دیا۔ مان کے منہ سے بد دعا نکل گئی کہ خدا تجھ کو میرے جنازہ کی شرکت سے محروم کردے اور تجھ کو کوڑھی کرکے مارے۔ میں نے دیکھا کہ ان کی انگلیوں سے مواد گررہا تھا، کوڑھی ہوگئے تھے۔ میں نے پوچھاتو کہا کہ میری ماں کی دو بددعائیں تھیں میں جنازہ میں بھی شریک نہیں ہوسکا۔ ایسے حالات مجبوری کے پیش آگئے اور مجھے کوڑھ بھی ہوگیا۔ آنکھوں دیکھا حال بتارہا ہوں۔ اس لیے ماں باپ کے معاملہ میں بہت خیال رکھیے۔

کتاب: خوشگوار ازدواجی زندگی .مواعظِ حسنہ:۷
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

Online: http://books.hazratmeersahib.com/book/17/khushgawar-istewaji-zindagi.html

signature.gif?u=380741&e=30670232&v=361b90d13ee6813ab4c43a1a618766776883d7c410f5b4c6647cdb526d804732

Standard

خواب میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت

خواب میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوجانا نعمتِ عظمیٰ ہے۔ اکثر درود شریف کی کثرت اور کمالِ اتباعِ سنت اور غلبۂ محبت سے یہ نصیب ہوجاتی ہے لیکن یہ کوئی کلیہ اور لازمی امر نہیں اس لئے اگر کسی کو نصیب نہ ہو تو مغموم نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کسی کو اتباعِ سنت، تقویٰ اور گناہوں سے حفاظت حاصل ہے لیکن خواب میں زیارت نہیں ہوئی تو مغموم نہ ہو کہ اس کو مقصود یعنی اتباع حاصل ہے اوراگر کسی کو زیارت ہوگئی لیکن طاعت و تقویٰ نصیب نہیں تو یہ اس کے لئے کافی نہیں۔

حضرت حکیم الامت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی متبع سنت، متقی اور پرہیزگار خواب میں روزانہ خود کو جہنم میں جلتا ہوا دیکھتا ہے تو یہ خواب اُس کے لئے کچھ مضر نہیں اور کسی غیر متقی فاسق و فاجر کو روزانہ خواب میں زیارت ہوتی ہے تو یہ خواب اُس کے لئے کچھ مفید نہیں کیوں کہ اُن کو کیا مل گیا جنہوں نے بیداری میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا لیکن اتباع نہ کی جیسے ابوجہل اور ابولہب۔ یہ صورۃً قریب تھے معناً دور تھے اور بعضے جنہوں نے آپ کو نہیں دیکھا لیکن اتباع و محبت کی وجہ سے وہ صورۃً دور تھے معناً قریب تھے جیسے حضرت اویس قرنی۔

بہرحال چونکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نعمتِ عظمیٰ اور سعادت ہے اس لئے نشر الطیب سے چند احادیث زیارت کی فضیلت کے بارے میں نقل کی جاتی ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے مجھ کو خواب میں دیکھااُس نے مجھ کو ہی دیکھا کیوں کہ شیطان میری صورت میں متمثل نہیں ہوسکتا روایت کیا اس کو بخاری و مسلم نے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو شخص مجھ کو خواب میں دیکھے وہ مجھ کو بیداری میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا روایت کیا اس کو بخاری و مسلم نے۔
فائدہ:اس میں بشارت ہے اس خواب دیکھنے والے کے لئے حسنِ خاتمہ کی چنانچہ بزرگانِ دین نے ایسے خواب کی یہی تعبیر دی ہے کہ اس شخص کاخاتمہ بالخیر ہوگا۔

میرے شیخ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ پورا قصیدہ بردہ شریف روزانہ تہجد کے وقت پڑھتے تھے۔ سب زبانی یاد تھا، ساتوں منزل روزانہ پڑھتے تھے، ہم لوگوں سے تو ایک منزل بھی نہیں پڑھی جاتی اور ساتوں منزل مناجاتِ مقبول کی روزانہ پڑھتے تھے اور بارہ مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ ایک مرتبہ تو ایسا دیکھا کہ فرمایا حکیم اختر میں نے آج خواب میں ایسا دیکھا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھوں کے لال لال ڈورے بھی نظر آئے۔ میں نے خواب ہی میں پوچھا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کیا میںنے آپ کو خوب دیکھ لیا تو فرمایا ہاں عبد الغنی تم نے اپنے رسول کو آج خوب دیکھ لیا۔ کیا کہوں پوری داستان آنکھوں کے سامنے سے گذر گئی۔ سترہ سال ساتھ رہا۔میں سمجھتا تھا کہ میرے شیخ کے انتقال کے بعد صدمہ و غم میں میرابھی انتقال ہوجائے گا، مگر انتقال اﷲ کے قبضہ میں ہے، جب اُن کا حکم ہو گا تب ہو گا انتقال۔(حضرت مولانا عبد الحمید صاحب نے کہا اِن شاء اﷲ ابھی تو بہت دور ہے آمین۔ جامع)

کتاب: عظمتِ رسالت .مواعظِ حسنہ:۴۹
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

Standard

اللہ تعالی کے سوا کسی کو علمِ غیب نہیں

خدا کے سوا کسی کو علمِ غیب نہیں

یہاں پر ایک بات یاد آئی، قرآن شریف میں ہے کہ ھدھد غائب تھا، حضرت سلیمان علیہ السلام نے سارے پرندوں کو جمع کرکے پوچھا کہ ھدھد کہاں ہے؟ اگر کسی خاص مقصد کے لیے غائب نہیں ہوا تو آج میں اس کو ذبح کر دوں گا، اتنے میں ھدھد حاضر ہوگیا، حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ اے ھدھد! تو کہاں گیا تھا؟ تو اس نے کہا اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہِ وَ جِئْتُکَ مِنْ سَبِأٍ بِنَبَاَئٍ یَّقِیْنٍ میں آپ کے پاس ایسی خبر لایا ہوں جس کا علم آپ کو نہیں ہے۔ اب بتائیے! نبی کے علمِ غیب کی نفی کر رہا ہے۔ دیکھا آپ نے کیا ھُدھُد بھی گمراہ نکلا لاَحَوْلَ وَلاَقُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲِ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

{ لاَ یَعْلَمُ الْغَیْبَ اِلاَّ ھُوْ }
علمِ غیب صرف اللہ کو ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہا ر گم ہوگیا۔ سرور ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تلاش کرو۔ اس جگہ پانی نہیں تھا تو تیّمم کرکے نماز پڑھنے کی آیت نازل ہوئی۔ جب قافلہ تیّمم کرکے نماز پڑھ چکا اور آگے روانہ ہوا تو اونٹ اٹھا جس کے نیچے ہا ر چھپا ہوا تھا۔ اگر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو علمِ غیب ہوتا تو ہار کا بھی علم ہوتا اور آپ بتا دیتے کہ ہار اونٹ کے نیچے ہے۔ کیا نبی ایسا کر سکتا ہے کہ اس کو علم ہو کہ ہار اونٹ کے نیچے ہے اور صحابہ بے چین ہوں، پریشان ہوں اور وہ نہ بتائے؟

لیکن افسوس ہے ان پر کہ جب تک ان کو شرک کی چٹنی نہ مل جائے اس وقت تک ان کو مزہ ہی نہیں آتا، لاکھ حدیثیں سنا دو مگر ان کو مزہ نہیں آئے گا لیکن اگر یہ سنا دیجئے کہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی گیارہویں شریف کی بریا نی کی ایک ہڈی کوا لے گیا اور وہ اس کی گرفت سے چھوٹ کر قبرستان میں گرگئی تو گیارہویں شریف کی بریانی کی ہڈی کی برکت سے سب قبرستان والے بخش دیئے گئے۔ آہ! ایسی واہیات باتوں سے ان کو بڑا مزہ آتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی عظمت، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنتوں کی عظمت کے بیان میں ان کو مزہ نہیں آتا، پیروں کو خدا سے بڑھاتے ہیں ؎

خدا فرما چکا قرآں کے اندر
میرے محتاج ہیں پیر و پیمبر
وہ کیا ہے جو نہیں ہوتا خدا سے
جسے تو مانگتا ہے اولیاء سے

اولیاء اللہ کا وسیلہ تو جائز ہے لیکن ان سے براہِ راست مانگنا شرک ہے، کسی قبر سے کہنا کہ ہمیں بچہ دے دو، ہماری روزی نہیں ہے ہمیں رزق دے دو، یہ بالکل کفر ہے، ایسا شخص کافر ہو کر جہنم میں جائے گا لیکن یہ کہنا کہ یا اللہ! اپنے مقبول بندوں کے صدقے میں ، اپنے اولیاء کے صدقے میں اور سب سے بڑھ کر ہمارے پیارے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقہ میں ہماری دعاؤں کو قبول فرمالیجیے۔ بتا دیا کہ انبیاء اور اولیاء کا وسیلہ جائز ہے یعنی ان کے وسیلہ سے اﷲ تعالیٰ سے مانگنا جائز ہے براہِ راست انبیاء و اولیاء کی قبروں سے مانگنا شرک ہے۔

کتاب: آدابِ عشقِ رسول ﷺ .مواعظِ حسنہ:۷۳
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

Read Online: http://books.hazratmeersahib.com/book/364/adaab-e-ishq-e-rasool-saw.html#43

signature.gif?u=380741&e=29873767&v=34a41d05be7839354a2e5c67df34d3763e2f87a257310891a0b53a4efffb177d

Standard

کعبہ شریف میں نماز پڑھنے کا دعویٰ کرنے والے پیر کا حشر

ایک جعلی پیر لوگوں کو خوب اُلو بناتا تھا، نماز نہیں پڑھتا تھا اور کہتا تھا کہ میں کعبہ شریف میں نماز پڑھتا ہوں، اپنے گائوں کی مسجد میں نہیں پڑھتا۔ ایک مولوی صاحب نے گائوں والوں سے کہا کہ بھائی! پیر تو کعبہ شریف میں نماز پڑھتا ہے لہٰذا اس کا کھانا پینا بند کردو، اسے اس گائوں کا کھانا مت دو، اُس سے کہو کہ وہ کعبہ شریف کی کھجور کھالیا کرے اور زم زم کا پانی پی لیا کرے۔ وہاں کی مبارک غذا کو چھوڑ کر ہندوستان کا نامبارک کھانا کیوں کھاتا ہے۔

مولوی صاحب کی یہ بات مریدوں کی سمجھ میں آگئی کہ واقعی صحیح بات ہے کہ مکہ شریف کا مبارک کھانا چھوڑ کر یہاں ہندوستان میں کیوں کھاتا ہے۔ سارے گائوں والے جمع ہوگئے۔ جب آپ کعبہ شریف نماز پڑھنے جاتے ہو تو وہیں کھجور کھاکر زم زم پی لیا کرو بلکہ ہم لوگوں کو بھی لاکر دیا کرو۔ جعلی پیر صاحب کو جب تین دن کھانا نہیں ملا تو چوتھے روز کہنے لگے کہ بھائیو! آج سے ہم آپ کی مسجد ہی میں نماز پڑھا کریں گے لیکن لوگوں نے کہا کہ اب ہم تمہیں کھانا نہیں دیں گے کیونکہ تم کھانے کے لیے نماز پڑھوگے اور اس کو بستی سے بھگادیا۔

۔۔۔۔۔۔

ایک گائوں کا پیر کبھی نماز نہیں پڑھاتا تھا۔ ایک مرتبہ اس کو لوگوں نے نماز پڑھانے کے لیے آگے کردیا۔ وہ تو بالکل جاہل اور اَن پڑھ تھا لہٰذا اس نے سوچا کہ ان مریدوں کو چکر دینا چاہیے۔ چنانچہ ا ُس نے نماز میں دھت دھت دھت کہنا شروع کردیا۔ جب سلام پھیرا تو لوگوں نے کہا کہ آپ نماز میں کیا کہہ رہے تھے؟ اس نے کہا کہ کعبہ شریف میں کتّا داخل ہونا چاہ رہا تھا، میں نے اس کو للکارا تاکہ کعبہ شریف میں گھسنے نہ پائے۔

اس جعلی پیر کی مکّاری ظاہری کرنے کے لیے ایک ہوشیار آدمی نے اُس پیر کی اور اس کے سارے مریدوں کی دعوت کی اور پیر صاحب کی پلیٹ میں چاولوں کی تہہ کے نیچے چھپاکر بوٹیاں رکھ دیں۔ جب پیر کے سامنے پلیٹ آئی تو اس نے لال لال آنکھیں نکال کر کہا کہ تم تو مجھے وہابی معلوم ہوتے ہو، ارے! پیروں کو تو بوٹیاں دی جاتی ہیں، اس میں تو خالی چاول ہی چاول ہیں۔ وہ صاحب کھڑے ہوئے اور کہا ارے بھائیو! تمہارا پیر کہتا ہے کہ اسے کعبہ شریف کا کتّا تک نظر آجاتا ہے، مگر چند انچ نیچے کی بوٹیاں نظر نہیں آئیں۔ پھر اس نے چاول ہٹاکر سب کو بوٹیاں دکھائیں تو سب نے توبہ کی اور پیر کو مار کر بھگادیا۔

کتاب: اصلی پیری مریدی کیا ہے؟ .مواعظِ حسنہ:۵۸
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

Standard

شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کے صبر کا واقعہ

شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ ایک بزرگ تھے۔ صاحبِ کرامت تھے۔ ایک ہزار میل سے ایک شخص ان سے مرید ہونے ایا۔ شیخ جنگل میں لکڑیاں لینے گئے تھے۔ اس نے گھر کے باہر سے ان کی اہلیہ سے پوچھا کہ شیخ کہاں ہیں؟ اندر سے آواز آئی کہ ارے! وہ شیخ کہاں ہیں میخ ہیں۔ وہ بالکل بزرگ نہیں ہیں۔ خواہ مخواہ تم لوگ چکر میں پھنسے ہوئے ہو۔ رات دن تو میں اس کے ساتھ رہتی ہوں، میں خوب جانتی ہوں، تم کیا جانو۔ اب وہ بے چارہ تو رونے لگا کہ یااللہ! میں ایک ہزار میل سے ان کو بزرگ سمجھ کر آیا ہوں اور یہ عورت کیا کہہ رہی ہے۔ محلہ والوں نے کہا کہ یہ عورت بہت بدتمیز ہے۔ یہ ان کا ظرف ہے جو اس کو برداشت کررہے ہیں۔ جائو! جنگل میں جاکر شیخ کو تلاس کرو۔ جنگل گئے تو دیکھا کہ شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ شیر پر بیٹھے ہوئے آرہے ہیں اور لکڑیوں کا گٹھڑ بھی اس کی پیٹھ پر لادے ہوئے ہیں اور سانپ کا کوڑا ہاتھ میں ہے۔

اس شخص کو دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ شاید تم میرے گھر سے ہوکر آرہے ہو جو تمہارا چہرہ اُترا ہوا ہے۔ بیوی سے کچھ شکایت سنی ہوگی۔ اس کا خیال مت کرو۔ میں جو اس سے نباہ کررہا ہوں اور اس کی بدزبانی اور کڑوی باتوں کو برداشت کررہا ہوں۔ اسی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ کرامت دی ہے کہ یہ شیر نر میرے قبضہ میں ہے اور میں اس سے بے گاری کا کام لے رہا ہوں۔ روزانہ اس پر لکڑی لادھ کر لے جاتا ہوں اور یہ سانپ کا کوڑا اللہ نے مجھے دیا ہے۔ جب شیر نہیں چلتا تو سانپ کے کوڑے سے اس کو مارتا ہوں۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے مثنوی میں اس قصہ کو بیان فرمایا اور اس موقع پر ایک شعر لکھا ہے جس کو مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ پڑھا کرتے تھے اور مست ہوکر پڑھتے تھے ؎

گر نہ صبرم می کشیدے بارزن
اگر میرا صبر اس کڑوی زبان والی عورت کو برداشت نہ کرتا، اس عورت کی تلخ مزاجیوں کے بوجھ کو میرا صبر نہ اُٹھاتا۔
کے کشیدے شیر نر بے گار من
تو بھلا یہ شرنر میری بے گاری کرتا، میری مزدوری کرتا۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اسی کے صدقہ میں دیا ہے۔

دوستو! میں یہی بات عرض کررہا ہوں کہ بیویوں کے معاملہ میں اچھے اخلاق سے پیش آئیے۔ ان کی کڑوی زبان کو برداشت کرلیجئے۔ نہ برداشت ہو تو تھوڑی دیر کے لیے گھر سے باہر چلے جائیے۔ سعد شیرازی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر بیوی کڑوی بات کررہی ہو تو ایک گلاب جامن اس کے منہ میں ڈال دو تاکہ گالی بھی میٹھی میٹھی نکلے۔ عام لوگ ڈنڈے سے اس کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں حالانکہ بیویاں ڈنڈوں سے ٹھیک نہیں ہوتی ہیں۔

دیکھئے! حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ بخاری شریف کی حدیث ہے:
’’اَلْمَرْأَۃُ کَالضِّلْعِ‘‘
عورت مثل ٹیڑھی پسلی کے ہے، کیونکہ ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے، لہٰذا اس میں کچھ نہ کچھ ٹیڑھا پن تو رہے گا۔

’’اِنْ اَقَمْتَہَا کَسَرْتَہَا‘‘
اگر ان کو سیدھا کروگے تو توڑ دو گے، طلاق تک نوبت پہنچ جائے گی۔

’’وَاِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِہَا اسْتَمْتَعْتَ بِہَا وَفِیْہَا عِوَجٌ‘‘
اور تم اس سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہو تو فائدہ اُٹھالو اور اس میں ٹیڑھا پن رہے گا جس طرح ٹیڑھی پسلی سے فائدہ اُٹھارہے ہو یا نہیں یا کبھی ڈاکٹر کے پاس گئے کہ میری پسلی کو سیدھا کردو۔ اسی طرح عورت کے ٹیڑھے پن کے ساتھ سے فائدہ اُٹھاسکتے ہو۔ اس سے راحت بھی مل جائے گی، اولاد بھی اس سے ہوجائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی ولی اللہ اس سے پیدا ہوجائے جو قیامت کے دن آپ کی مغفرت کا ذریعہ ہو۔

’’وَعَسٰی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ۔‘‘ (پارہ: ۲، سورہ بقرہ)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بعض چیز کو تم ناپسند کرتے ہو اور اس میں تمہارے لیے خیر ہوتی ہے۔

Full Book Link: http://books.hazratmeersahib.com/book/6/huquq-un-nisa.html

حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ
کتاب: حقوق النساء .مواعظِ حسنہ:

signature.gif?u=380741&e=29155696&v=bd4634943375d884bfbac8b98c214d00bc51880b9693c5c4b11c4a711c7bc295

Standard

Should we be proud of our wealth?

حدیث نمبر۱۳ وَعَن مُطرّف عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يقْرَأ: (آلهاكم التكاثر) قَالَ: ” يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِي مَالِي “. قَالَ: «وَهَلْ لَكَ يَا ابْنَ آدَمَ إِلَّا مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ أَوْ تصدَّقت فأمضيت. رَوَاهُ مُسلم
مسلم : کتاب الزھد ص ۴۰۷،ج۲

ترجمہ: حضرت مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اَلْھَکُمُ التَّکَاثُرُ پڑھ رہے تھے (یعنی سورہ الھکم التکاثر جس کے معنی یہ ہیں کہ اے لوگوں اپنے مال کی زیادتی پر باہم فخر کرنے کے سبب آخرت کے خیال سے بے پروا ہو گئے ہو یعنی مال کی زیادتی پر فخر کرنے کی وجہ سے تمھارے قلوب میں اندیشۂ آخرت باقی نہیں رہاہے)

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدم کا بیٹا میرا مال میرا مال کہتا رہتا ہے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ آدم کے بیٹے تیرے مال میں سے تجھ کو کچھ نہیں ملتا مگر صرف اتنا جتنا کہ

تو نے کھایا اور خراب کر دیا

پہنا اور پھاڑ ڈالا

اور خیرات کر دیا اور آخرت کے لئے ذخیرہ کیا

(مسلم)

تشریح: آدمی مال کے بڑھانے کی فکر میں آخرت کے اعمال سے غافل ہو جاتا ہے۔ جس کے سبب پردیس کا امیر اور وطن آخرت کا قلاش اور مفلس ہو جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا نادانی ہو سکتی ہے۔ حق تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔

کتاب: رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت .
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ