حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے جذب کا واقعہ
سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے واقعہ سے شروع کروں گا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو کیسے جذب فرمایا۔
صدیق اکبر سولہ سال کے ہیں۔ سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم اٹھارہ سال کے ہیں۔ ایک نبی کی جوانی ایک صدیق کی جوانی، دونوں بزرگوں کی دوستی شروع ہوتی ہے۔ مکہ شریف میں دونوں کی روزانہ ملاقات ہوتی ہے، ایک باربہ ضرورت تجارت حضرت ابوبکر صدیق شام تشریف لے گئے۔ وہاں جا کر ایک خواب دیکھا اور وہاں کہ ایک راہب سے اپنا وہ خواب بیان کیا ۔راہب نے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو۔ فرمایا کہ مکہ شریف سے ۔ پوچھا کہ کیا کام ہے؟ فرمایا تاجر ہوں، تجارت کے لیے آیا ہوں پوچھا کس قبیلے سے ہو؟ فرمایا قریش مکہ ہوں۔ راہب نے کہا اس خواب کی تعبیر سنو۔ اس کی تعبیر یہ ہے کہ عنقریب تمہارے شہر میں ایک پیغمبر آنے والا ہے ’’یُبْعَثُ نَبِیٌّمِنْ قَوْمِکَ‘‘تمہاری قوم سے ایک پیغمبر مبعوث ہوگا۔ ’’تَکُوْنُ وَزِیْرَہٗ فِی حَیَاتِہٖ وَخَلِیفَتَہٗ بَعْدَ وَفَاتِہٖ‘‘تم اس کے زمانہ حیات میں اس کے وزیر رہوگے اور اس کی وفات کے بعد اس کے پہلے خلیفہ بنوگے۔’’فَاَسَرَّھَا اَبُوْبَکْرٍ مِنَ الْکَائِنَاتِ کُلِّہَا‘‘ حضرت ابو بکر صدیق نے یہ خواب کسی کو نہیں بتایا نہ اپنی بیوی سے نہ بچوں سے نہ اپنے دوستوں سے یہاں تک حضرت ابوبکر صدیق ۳۸؍ سال کے ہوگئے اور سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم چالیس سال کے ہوگئے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم غار حرا میں نبوت سے مشرف ہوئے۔ اقرأ نازل ہوئی اور سارے مذاہب کی کتابیں اسی وقت منسوخ کر دی گئیں ؎
یتیمے کہ نا کردہ قرآں درست
کتب خانۂ ہفت ملت بشست
جس یتیم بچہ نے ابھی قرآن کو مکمل نہیں کیا، جس پر ابھی قرآن پورا نازل نہیں ہوا، صرف ’’اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ‘‘ کی آیت نازل ہوئی کہ سارے مذاہب کے کتب خانے اور ساری کتابیں منسوخ ہوگئیں۔ توریت منسوخ ہوگئی، زبور منسوخ ہوگئی، انجیل منسوخ ہوگئی۔
آپ نے اعلان کیا کہ اے ابوبکر! میں نبی ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل کی ہے۔ عرض کیا یا محمد! ابھی ایمان نہیں لائے تھے ۔لیکن ہم سب لوگ درود شریف پڑھیں گے۔ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ’’یَا مُحَمّدُ مَا الدَّلِیْلُ عَلٰی مَا تَدَّعِیْ‘‘جس چیز کا آپ دعویٰ کر رہے ہیں اس کی آپ کے پاس کوئی دلیل ہے۔پُرانا دوستانہ تھا اور دوستی میں آدمی بے تکلفی سے پوچھ لیتا ہے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے ابوبکر جو دعویٰ نبوت کا میں کر رہا ہوں اس کی دلیل:
(( اَلرُّؤْیَا الَّتِیْ رَأَیْتَ بِالشَّامِ))
(خصائص کبرٰی،ج:۱،ص:۲۹)
تیرا وہ خواب ہے جو تو نے شام میں دیکھا تھا حالانکہ انہوں نے اس خواب کو سارے عالم سے چھپایا تھا۔ حضرت صدیق اکبر سمجھ گئے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نبی ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی ہے کہ ابوبکر نے کیا خواب دیکھا تھا اور در اصل اس طرح جان صدیق کو اپنی طرف اﷲ تعالیٰ نے جذب کیا کہ پہلے ہی ان کو خواب میں دکھا دیا تھا۔ اسی کو کہتے ہیں ؎
نہ میں دیوانہ ہوں اصغر نہ مجھ کو ذوق عریانی
کوئی کھینچے لیے جاتا ہے خود جیب و گریباں کو
اس امت مسلمہ میں یہ سب سے پہلا جذب حضرت صدیق اکبر کو نصیب ہوا۔ اﷲ تعالیٰ کی صفتِ جذب، تجلیات اجتبائیہ کی شعاعیں سب سے پہلے جان صدیق پر پڑیں اور اس نعمت سے اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے ان کو مشرف فرمایا۔ اس وقت اپنے خواب کی تکمیل سے اور اﷲ تعالیٰ کی رحمت کو دیکھ کر مارے خوشی کے بے اختیار سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے لپٹ گئے۔’’فَعَانَقَہٗ‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے معانقہ کرلیا۔ اس وقت مقام انس میں تھے۔ دونوں روحیں ایک دوسرے کی عارف تھیں۔ یہ وہ مبارک روحیں ہیں کہ دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بھی ان کی قبریں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب ہیں اور جہاں سے مٹی اُٹھائی جاتی ہے وہیں دفن ہوتی ہے یہ دلیل ہے اس بات کی کہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا جسم مبارک جس مٹی سے تعمیر ہوا وہیں قریب کی مٹی سے ان حضرات یعنی حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہما کی تعمیر ہوئی ہے۔ پس حضرت صدیق اکبر نے معانقہ کر کے ’’قَبَّلَ مَا بَیْنَ عَیْنَیْہِ‘‘حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوںکے درمیان پیشانی مُبارک کا بوسہ لیا اور کلمۂ شہادت پڑھا۔ یہ وہ شخصیت ہے کہ جس نے بوقت اسلام پیشانی نبوت کا بوسہ لیا اور جب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم دنیا سے تشریف لے گئے اس وقت بھی انہوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک کا بوسہ لیا۔
کتاب: تجلیات جذب (حصہ اوّل) .مواعظِ حسنہ:۱۱
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ
http://books.hazratmeersahib.com/book/309/tajliyate-jazb.html
ماں باپ کو ستانے کا وبال
ایک شخص کو اپنی بیوی پر غصہ آیا تھا۔ سالن میں نمک تیز کردیا تھا لیکن پھر اسے اللہ یاد آیا اور دل میں کہا کہ اسے کچھ نہیں کہوں گا۔ دل ہی دل میں اللہ سے سودا کرلیا کہ اے اللہ اے اللہ یہ آپ کی بندی ہے۔ میری بیوی تو ہے لیکن آپ کی بندی بھی ہے۔ بس یہی چیز لوگ یاد نہیں رکھتے۔ وہ سمجھتے ہیںکہ صرف میری بیوی ہے،یہ یاد رکھا کیجیے کہ خدا تعالیٰ کی بندی ہے۔ اللہ آسمان سے دیکھ رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی زیادتی ہوجائے۔ جنہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی میں نے دیکھا ہے کہ ایسے ظالموں کا بہت برا حشر ہوا۔ اکثر کو دیکھا کہ فالج ہوگیا۔ پڑے پڑے ہگ رہے ہیں اور کسی مصیبت میں مبتلا ہوگئے۔ ظلم کی سزا بہت خطرناک ہوتی ہے۔
لہٰذا اس نے معاف کردیا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے ان کو خواب میں دیکھا۔ پوچھا کہ بھائی تمہارے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک دن تمہاری بیوی سے کھانے میں نمک تیز ہوگیا تھا۔تم کوغصہ تو بہت آیا تھا لیکن تم نے مجھ کو خوش کرنے کے لیے اسے معاف کردیا تھا میری بندی سمجھ کر۔ اس کے بدلہ میں آج میں تم کو معاف کرتا ہوں۔ آہ! اگر اس کو کوئی معمولی شخص بیان کرتا تو اتنا اثر نہ ہوتا۔ حکیم الامت مجدّد الملّت جیسے اللہ والے عالم نے اس قصہ کو اپنے وعظ میں بیان فرمایا لہٰذا اپنے بال بچوں، اپنی بیویوں اپنے رشتہ داروں اور اپنے ماں باپ کے معاملہ میں ہوشیار ہوجائے۔ خصوصاً ماں باپ کے معاملہ میں تو بہت ڈرتے رہیے۔ کبی ان سے بڑبڑ مت کیجیے۔ ماں باپ کی بددعا تو ایسی لگی ہے کہ دنیا میں بغیر عذاب چکھے کوئی مر نہیں سکتا۔
مشکوٰۃ کی حدیث ہے کہ جس نے ماں باپ کو ستایا اسے موت نہ آئے گی جب تک دنیا میں اس پر عذاب نازل نہ ہوجائے۔ (مشکوٰۃ: ص ۴۲۱)
بمبئی میں مجھے ایک صوفی صاحب ملے۔ اللہ والے شخص تھے لیکن غلطی ہوگئی۔ بیوی اور ماں میں لڑائی ہورہی تھی۔ اس نے بیوی کا پارٹ لے کر ماں کو کچھ جھڑک دیا۔ مان کے منہ سے بد دعا نکل گئی کہ خدا تجھ کو میرے جنازہ کی شرکت سے محروم کردے اور تجھ کو کوڑھی کرکے مارے۔ میں نے دیکھا کہ ان کی انگلیوں سے مواد گررہا تھا، کوڑھی ہوگئے تھے۔ میں نے پوچھاتو کہا کہ میری ماں کی دو بددعائیں تھیں میں جنازہ میں بھی شریک نہیں ہوسکا۔ ایسے حالات مجبوری کے پیش آگئے اور مجھے کوڑھ بھی ہوگیا۔ آنکھوں دیکھا حال بتارہا ہوں۔ اس لیے ماں باپ کے معاملہ میں بہت خیال رکھیے۔
کتاب: خوشگوار ازدواجی زندگی .مواعظِ حسنہ:۷
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ
Online: http://books.hazratmeersahib.com/book/17/khushgawar-istewaji-zindagi.html
خواب میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت
خواب میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوجانا نعمتِ عظمیٰ ہے۔ اکثر درود شریف کی کثرت اور کمالِ اتباعِ سنت اور غلبۂ محبت سے یہ نصیب ہوجاتی ہے لیکن یہ کوئی کلیہ اور لازمی امر نہیں اس لئے اگر کسی کو نصیب نہ ہو تو مغموم نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کسی کو اتباعِ سنت، تقویٰ اور گناہوں سے حفاظت حاصل ہے لیکن خواب میں زیارت نہیں ہوئی تو مغموم نہ ہو کہ اس کو مقصود یعنی اتباع حاصل ہے اوراگر کسی کو زیارت ہوگئی لیکن طاعت و تقویٰ نصیب نہیں تو یہ اس کے لئے کافی نہیں۔
حضرت حکیم الامت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی متبع سنت، متقی اور پرہیزگار خواب میں روزانہ خود کو جہنم میں جلتا ہوا دیکھتا ہے تو یہ خواب اُس کے لئے کچھ مضر نہیں اور کسی غیر متقی فاسق و فاجر کو روزانہ خواب میں زیارت ہوتی ہے تو یہ خواب اُس کے لئے کچھ مفید نہیں کیوں کہ اُن کو کیا مل گیا جنہوں نے بیداری میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا لیکن اتباع نہ کی جیسے ابوجہل اور ابولہب۔ یہ صورۃً قریب تھے معناً دور تھے اور بعضے جنہوں نے آپ کو نہیں دیکھا لیکن اتباع و محبت کی وجہ سے وہ صورۃً دور تھے معناً قریب تھے جیسے حضرت اویس قرنی۔
بہرحال چونکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نعمتِ عظمیٰ اور سعادت ہے اس لئے نشر الطیب سے چند احادیث زیارت کی فضیلت کے بارے میں نقل کی جاتی ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے مجھ کو خواب میں دیکھااُس نے مجھ کو ہی دیکھا کیوں کہ شیطان میری صورت میں متمثل نہیں ہوسکتا روایت کیا اس کو بخاری و مسلم نے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو شخص مجھ کو خواب میں دیکھے وہ مجھ کو بیداری میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا روایت کیا اس کو بخاری و مسلم نے۔
فائدہ:اس میں بشارت ہے اس خواب دیکھنے والے کے لئے حسنِ خاتمہ کی چنانچہ بزرگانِ دین نے ایسے خواب کی یہی تعبیر دی ہے کہ اس شخص کاخاتمہ بالخیر ہوگا۔
میرے شیخ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ پورا قصیدہ بردہ شریف روزانہ تہجد کے وقت پڑھتے تھے۔ سب زبانی یاد تھا، ساتوں منزل روزانہ پڑھتے تھے، ہم لوگوں سے تو ایک منزل بھی نہیں پڑھی جاتی اور ساتوں منزل مناجاتِ مقبول کی روزانہ پڑھتے تھے اور بارہ مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ ایک مرتبہ تو ایسا دیکھا کہ فرمایا حکیم اختر میں نے آج خواب میں ایسا دیکھا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھوں کے لال لال ڈورے بھی نظر آئے۔ میں نے خواب ہی میں پوچھا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کیا میںنے آپ کو خوب دیکھ لیا تو فرمایا ہاں عبد الغنی تم نے اپنے رسول کو آج خوب دیکھ لیا۔ کیا کہوں پوری داستان آنکھوں کے سامنے سے گذر گئی۔ سترہ سال ساتھ رہا۔میں سمجھتا تھا کہ میرے شیخ کے انتقال کے بعد صدمہ و غم میں میرابھی انتقال ہوجائے گا، مگر انتقال اﷲ کے قبضہ میں ہے، جب اُن کا حکم ہو گا تب ہو گا انتقال۔(حضرت مولانا عبد الحمید صاحب نے کہا اِن شاء اﷲ ابھی تو بہت دور ہے آمین۔ جامع)
کتاب: عظمتِ رسالت .مواعظِ حسنہ:۴۹
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ
اللہ تعالی کے سوا کسی کو علمِ غیب نہیں
خدا کے سوا کسی کو علمِ غیب نہیں
یہاں پر ایک بات یاد آئی، قرآن شریف میں ہے کہ ھدھد غائب تھا، حضرت سلیمان علیہ السلام نے سارے پرندوں کو جمع کرکے پوچھا کہ ھدھد کہاں ہے؟ اگر کسی خاص مقصد کے لیے غائب نہیں ہوا تو آج میں اس کو ذبح کر دوں گا، اتنے میں ھدھد حاضر ہوگیا، حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ اے ھدھد! تو کہاں گیا تھا؟ تو اس نے کہا اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہِ وَ جِئْتُکَ مِنْ سَبِأٍ بِنَبَاَئٍ یَّقِیْنٍ میں آپ کے پاس ایسی خبر لایا ہوں جس کا علم آپ کو نہیں ہے۔ اب بتائیے! نبی کے علمِ غیب کی نفی کر رہا ہے۔ دیکھا آپ نے کیا ھُدھُد بھی گمراہ نکلا لاَحَوْلَ وَلاَقُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲِ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
{ لاَ یَعْلَمُ الْغَیْبَ اِلاَّ ھُوْ }
علمِ غیب صرف اللہ کو ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہا ر گم ہوگیا۔ سرور ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تلاش کرو۔ اس جگہ پانی نہیں تھا تو تیّمم کرکے نماز پڑھنے کی آیت نازل ہوئی۔ جب قافلہ تیّمم کرکے نماز پڑھ چکا اور آگے روانہ ہوا تو اونٹ اٹھا جس کے نیچے ہا ر چھپا ہوا تھا۔ اگر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو علمِ غیب ہوتا تو ہار کا بھی علم ہوتا اور آپ بتا دیتے کہ ہار اونٹ کے نیچے ہے۔ کیا نبی ایسا کر سکتا ہے کہ اس کو علم ہو کہ ہار اونٹ کے نیچے ہے اور صحابہ بے چین ہوں، پریشان ہوں اور وہ نہ بتائے؟
لیکن افسوس ہے ان پر کہ جب تک ان کو شرک کی چٹنی نہ مل جائے اس وقت تک ان کو مزہ ہی نہیں آتا، لاکھ حدیثیں سنا دو مگر ان کو مزہ نہیں آئے گا لیکن اگر یہ سنا دیجئے کہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی گیارہویں شریف کی بریا نی کی ایک ہڈی کوا لے گیا اور وہ اس کی گرفت سے چھوٹ کر قبرستان میں گرگئی تو گیارہویں شریف کی بریانی کی ہڈی کی برکت سے سب قبرستان والے بخش دیئے گئے۔ آہ! ایسی واہیات باتوں سے ان کو بڑا مزہ آتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی عظمت، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنتوں کی عظمت کے بیان میں ان کو مزہ نہیں آتا، پیروں کو خدا سے بڑھاتے ہیں ؎
خدا فرما چکا قرآں کے اندر
میرے محتاج ہیں پیر و پیمبر
وہ کیا ہے جو نہیں ہوتا خدا سے
جسے تو مانگتا ہے اولیاء سے
اولیاء اللہ کا وسیلہ تو جائز ہے لیکن ان سے براہِ راست مانگنا شرک ہے، کسی قبر سے کہنا کہ ہمیں بچہ دے دو، ہماری روزی نہیں ہے ہمیں رزق دے دو، یہ بالکل کفر ہے، ایسا شخص کافر ہو کر جہنم میں جائے گا لیکن یہ کہنا کہ یا اللہ! اپنے مقبول بندوں کے صدقے میں ، اپنے اولیاء کے صدقے میں اور سب سے بڑھ کر ہمارے پیارے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقہ میں ہماری دعاؤں کو قبول فرمالیجیے۔ بتا دیا کہ انبیاء اور اولیاء کا وسیلہ جائز ہے یعنی ان کے وسیلہ سے اﷲ تعالیٰ سے مانگنا جائز ہے براہِ راست انبیاء و اولیاء کی قبروں سے مانگنا شرک ہے۔
کتاب: آدابِ عشقِ رسول ﷺ .مواعظِ حسنہ:۷۳
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ
Read Online: http://books.hazratmeersahib.com/book/364/adaab-e-ishq-e-rasool-saw.html#43
کعبہ شریف میں نماز پڑھنے کا دعویٰ کرنے والے پیر کا حشر
ایک جعلی پیر لوگوں کو خوب اُلو بناتا تھا، نماز نہیں پڑھتا تھا اور کہتا تھا کہ میں کعبہ شریف میں نماز پڑھتا ہوں، اپنے گائوں کی مسجد میں نہیں پڑھتا۔ ایک مولوی صاحب نے گائوں والوں سے کہا کہ بھائی! پیر تو کعبہ شریف میں نماز پڑھتا ہے لہٰذا اس کا کھانا پینا بند کردو، اسے اس گائوں کا کھانا مت دو، اُس سے کہو کہ وہ کعبہ شریف کی کھجور کھالیا کرے اور زم زم کا پانی پی لیا کرے۔ وہاں کی مبارک غذا کو چھوڑ کر ہندوستان کا نامبارک کھانا کیوں کھاتا ہے۔
مولوی صاحب کی یہ بات مریدوں کی سمجھ میں آگئی کہ واقعی صحیح بات ہے کہ مکہ شریف کا مبارک کھانا چھوڑ کر یہاں ہندوستان میں کیوں کھاتا ہے۔ سارے گائوں والے جمع ہوگئے۔ جب آپ کعبہ شریف نماز پڑھنے جاتے ہو تو وہیں کھجور کھاکر زم زم پی لیا کرو بلکہ ہم لوگوں کو بھی لاکر دیا کرو۔ جعلی پیر صاحب کو جب تین دن کھانا نہیں ملا تو چوتھے روز کہنے لگے کہ بھائیو! آج سے ہم آپ کی مسجد ہی میں نماز پڑھا کریں گے لیکن لوگوں نے کہا کہ اب ہم تمہیں کھانا نہیں دیں گے کیونکہ تم کھانے کے لیے نماز پڑھوگے اور اس کو بستی سے بھگادیا۔
۔۔۔۔۔۔
ایک گائوں کا پیر کبھی نماز نہیں پڑھاتا تھا۔ ایک مرتبہ اس کو لوگوں نے نماز پڑھانے کے لیے آگے کردیا۔ وہ تو بالکل جاہل اور اَن پڑھ تھا لہٰذا اس نے سوچا کہ ان مریدوں کو چکر دینا چاہیے۔ چنانچہ ا ُس نے نماز میں دھت دھت دھت کہنا شروع کردیا۔ جب سلام پھیرا تو لوگوں نے کہا کہ آپ نماز میں کیا کہہ رہے تھے؟ اس نے کہا کہ کعبہ شریف میں کتّا داخل ہونا چاہ رہا تھا، میں نے اس کو للکارا تاکہ کعبہ شریف میں گھسنے نہ پائے۔
اس جعلی پیر کی مکّاری ظاہری کرنے کے لیے ایک ہوشیار آدمی نے اُس پیر کی اور اس کے سارے مریدوں کی دعوت کی اور پیر صاحب کی پلیٹ میں چاولوں کی تہہ کے نیچے چھپاکر بوٹیاں رکھ دیں۔ جب پیر کے سامنے پلیٹ آئی تو اس نے لال لال آنکھیں نکال کر کہا کہ تم تو مجھے وہابی معلوم ہوتے ہو، ارے! پیروں کو تو بوٹیاں دی جاتی ہیں، اس میں تو خالی چاول ہی چاول ہیں۔ وہ صاحب کھڑے ہوئے اور کہا ارے بھائیو! تمہارا پیر کہتا ہے کہ اسے کعبہ شریف کا کتّا تک نظر آجاتا ہے، مگر چند انچ نیچے کی بوٹیاں نظر نہیں آئیں۔ پھر اس نے چاول ہٹاکر سب کو بوٹیاں دکھائیں تو سب نے توبہ کی اور پیر کو مار کر بھگادیا۔
کتاب: اصلی پیری مریدی کیا ہے؟ .مواعظِ حسنہ:۵۸
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ
شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کے صبر کا واقعہ
شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ ایک بزرگ تھے۔ صاحبِ کرامت تھے۔ ایک ہزار میل سے ایک شخص ان سے مرید ہونے ایا۔ شیخ جنگل میں لکڑیاں لینے گئے تھے۔ اس نے گھر کے باہر سے ان کی اہلیہ سے پوچھا کہ شیخ کہاں ہیں؟ اندر سے آواز آئی کہ ارے! وہ شیخ کہاں ہیں میخ ہیں۔ وہ بالکل بزرگ نہیں ہیں۔ خواہ مخواہ تم لوگ چکر میں پھنسے ہوئے ہو۔ رات دن تو میں اس کے ساتھ رہتی ہوں، میں خوب جانتی ہوں، تم کیا جانو۔ اب وہ بے چارہ تو رونے لگا کہ یااللہ! میں ایک ہزار میل سے ان کو بزرگ سمجھ کر آیا ہوں اور یہ عورت کیا کہہ رہی ہے۔ محلہ والوں نے کہا کہ یہ عورت بہت بدتمیز ہے۔ یہ ان کا ظرف ہے جو اس کو برداشت کررہے ہیں۔ جائو! جنگل میں جاکر شیخ کو تلاس کرو۔ جنگل گئے تو دیکھا کہ شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ شیر پر بیٹھے ہوئے آرہے ہیں اور لکڑیوں کا گٹھڑ بھی اس کی پیٹھ پر لادے ہوئے ہیں اور سانپ کا کوڑا ہاتھ میں ہے۔
اس شخص کو دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ شاید تم میرے گھر سے ہوکر آرہے ہو جو تمہارا چہرہ اُترا ہوا ہے۔ بیوی سے کچھ شکایت سنی ہوگی۔ اس کا خیال مت کرو۔ میں جو اس سے نباہ کررہا ہوں اور اس کی بدزبانی اور کڑوی باتوں کو برداشت کررہا ہوں۔ اسی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ کرامت دی ہے کہ یہ شیر نر میرے قبضہ میں ہے اور میں اس سے بے گاری کا کام لے رہا ہوں۔ روزانہ اس پر لکڑی لادھ کر لے جاتا ہوں اور یہ سانپ کا کوڑا اللہ نے مجھے دیا ہے۔ جب شیر نہیں چلتا تو سانپ کے کوڑے سے اس کو مارتا ہوں۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے مثنوی میں اس قصہ کو بیان فرمایا اور اس موقع پر ایک شعر لکھا ہے جس کو مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ پڑھا کرتے تھے اور مست ہوکر پڑھتے تھے ؎
گر نہ صبرم می کشیدے بارزن
اگر میرا صبر اس کڑوی زبان والی عورت کو برداشت نہ کرتا، اس عورت کی تلخ مزاجیوں کے بوجھ کو میرا صبر نہ اُٹھاتا۔
کے کشیدے شیر نر بے گار من
تو بھلا یہ شرنر میری بے گاری کرتا، میری مزدوری کرتا۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اسی کے صدقہ میں دیا ہے۔
دوستو! میں یہی بات عرض کررہا ہوں کہ بیویوں کے معاملہ میں اچھے اخلاق سے پیش آئیے۔ ان کی کڑوی زبان کو برداشت کرلیجئے۔ نہ برداشت ہو تو تھوڑی دیر کے لیے گھر سے باہر چلے جائیے۔ سعد شیرازی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر بیوی کڑوی بات کررہی ہو تو ایک گلاب جامن اس کے منہ میں ڈال دو تاکہ گالی بھی میٹھی میٹھی نکلے۔ عام لوگ ڈنڈے سے اس کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں حالانکہ بیویاں ڈنڈوں سے ٹھیک نہیں ہوتی ہیں۔
دیکھئے! حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ بخاری شریف کی حدیث ہے:
’’اَلْمَرْأَۃُ کَالضِّلْعِ‘‘
عورت مثل ٹیڑھی پسلی کے ہے، کیونکہ ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے، لہٰذا اس میں کچھ نہ کچھ ٹیڑھا پن تو رہے گا۔
’’اِنْ اَقَمْتَہَا کَسَرْتَہَا‘‘
اگر ان کو سیدھا کروگے تو توڑ دو گے، طلاق تک نوبت پہنچ جائے گی۔
’’وَاِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِہَا اسْتَمْتَعْتَ بِہَا وَفِیْہَا عِوَجٌ‘‘
اور تم اس سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہو تو فائدہ اُٹھالو اور اس میں ٹیڑھا پن رہے گا جس طرح ٹیڑھی پسلی سے فائدہ اُٹھارہے ہو یا نہیں یا کبھی ڈاکٹر کے پاس گئے کہ میری پسلی کو سیدھا کردو۔ اسی طرح عورت کے ٹیڑھے پن کے ساتھ سے فائدہ اُٹھاسکتے ہو۔ اس سے راحت بھی مل جائے گی، اولاد بھی اس سے ہوجائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی ولی اللہ اس سے پیدا ہوجائے جو قیامت کے دن آپ کی مغفرت کا ذریعہ ہو۔
’’وَعَسٰی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ۔‘‘ (پارہ: ۲، سورہ بقرہ)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بعض چیز کو تم ناپسند کرتے ہو اور اس میں تمہارے لیے خیر ہوتی ہے۔
Full Book Link: http://books.hazratmeersahib.com/book/6/huquq-un-nisa.html
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ
کتاب: حقوق النساء .مواعظِ حسنہ:
Should we be proud of our wealth?
حدیث نمبر۱۳ وَعَن مُطرّف عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يقْرَأ: (آلهاكم التكاثر) قَالَ: ” يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِي مَالِي “. قَالَ: «وَهَلْ لَكَ يَا ابْنَ آدَمَ إِلَّا مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ أَوْ تصدَّقت فأمضيت. رَوَاهُ مُسلم
مسلم : کتاب الزھد ص ۴۰۷،ج۲
ترجمہ: حضرت مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اَلْھَکُمُ التَّکَاثُرُ پڑھ رہے تھے (یعنی سورہ الھکم التکاثر جس کے معنی یہ ہیں کہ اے لوگوں اپنے مال کی زیادتی پر باہم فخر کرنے کے سبب آخرت کے خیال سے بے پروا ہو گئے ہو یعنی مال کی زیادتی پر فخر کرنے کی وجہ سے تمھارے قلوب میں اندیشۂ آخرت باقی نہیں رہاہے)
پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدم کا بیٹا میرا مال میرا مال کہتا رہتا ہے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ آدم کے بیٹے تیرے مال میں سے تجھ کو کچھ نہیں ملتا مگر صرف اتنا جتنا کہ
تو نے کھایا اور خراب کر دیا
پہنا اور پھاڑ ڈالا
اور خیرات کر دیا اور آخرت کے لئے ذخیرہ کیا
(مسلم)
تشریح: آدمی مال کے بڑھانے کی فکر میں آخرت کے اعمال سے غافل ہو جاتا ہے۔ جس کے سبب پردیس کا امیر اور وطن آخرت کا قلاش اور مفلس ہو جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا نادانی ہو سکتی ہے۔ حق تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔
کتاب: رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت .
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ
بلّی کے بچّے پر ظلم کرنے کا عذاب :: بحوالہ حدیث
حدیث نمبر۱۵۴ وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ فَرَأَيْتُ فِيهَا امْرَأَةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ تُعَذَّبُ فِي هِرَّةٍ لَهَا رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا وَرَأَيْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرٍ الْخُزَاعِيَّ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ سَيَّبَ السَّوَائِبَ» . رَوَاهُ مُسلم
(مسلم : کتاب الکسوف ص ۲۹۷، ج۱،شرح السنۃ ص ۳۸۲،ج۷، رقم(۴۰۷۹)
ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا پیش کی گئی میرے سامنے دوزخ کی آگ (یعنی شب معراج میں یا خواب میں یا بیداری میں ) میں نے اس میں بنی اسرائیل کی ایک عورت کو دیکھا جس کو ایک بلی کے معاملہ میں عذاب کیا جارہا ہے جس کو اس نے باندھ کر رکھا تھا نہ تو وہ اس کو کھانے کو دیتی تھی اور نہ اس کی رسی کھولتی تھی کہ وہ حشر الارض میں سے (چل پھر کر )کچھ کھا لے یہاں تک کہ وہ بلی بھوک سے مرگئی اورمیں نے عمربن عامرخزاعی کو دیکھا جو اپنی آنتوں کو دوزخ کی آگ میں کھینچ رہا تھا اور یہ سب سے پہلا شخص تھا۔جس نے سانڈ چھوڑنے کی رسم نکالی تھی۔
تشریح:پہلے زمانۂ جاہلیت میں رواج تھا کہ جو اونٹنی ہمیشہ مادہ جنتی یا کوئی مسافر دور دراز سے آتا یا کوئی بیمار شفاء پاتا تو اونٹنی آزاد کرتے اور اس کو چھوڑ دیتے ۔اس پر سواری نہ کرتے جہاں سے وہ چاہتی چرتی پانی پیتی اور اس عمل کو بت کے تقرب کا ذریعہ سمجھاجاتا ۔اس رسم کی ابتداء کرنے والا اور بنیاد رکھنے والا یہی عمرو بن عامر خزاعی ہے اور علماء نے لکھا ہے کہ بتوں کی پرستش کی ایجاد کرنے والا بھی یہی ہے ۔اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ بعض آدمی ابھی سے دوزخ میں ہیں اوربعض علماء نے کہا ہے کہ قیامت کے دن جو اس پرہونے والا ہے وہ حالت آپ پر منکشف کی گئی اور صورت اس کی دکھادی گئی ۔واللہ اعلم
کتاب: رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت .
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ
حدیث نمبر ۱۸۴ کتاب: رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت
حدیث نمبر ۱۸۴ وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ (وَأَنْذِرْ عشيرتك الْأَقْرَبين)دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرَيْشًا فَاجْتَمَعُوا فَعَمَّ وَخَصَّ فَقَالَ: «يَا بَنِي كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ يَا بَنِي مُرَّةَ بْنِ كَعْبٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ. يَا بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ من النَّار يَا بني عبد منَاف أَنْقِذُوا أَنفسكُم من النَّار. با بَنِي هَاشِمٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ. يَا بني عبد الْمطلب أَنْقِذُوا أَنفسكُم من النَّار. يَا فَاطِمَةُ أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّ لَكُمْ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا» . رَوَاهُ مُسْلِمٌوَفَى الْمُتَّفَقِ عَلَيْهِ قَالَ: «يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا. وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا»
(بخاری : کتاب التفسیر سورۃ الشعراء ص ۷۰۲،ج۲)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی وانذرعشیرتک الاقربین اےنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ! آپ ڈرائیے اپنے کنبہ کے لوگوں کو جو بہت قریب کے ہیں )تو نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قریش کو بلایا ۔جب وہ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خطاب میں تعمیم کی اور تخصیص بھی (یعنی ان کے جد بعید کا نام لے کر بھی مخاطب کیا تاکہ سب کو عام و شامل ہو جائے اور ان کےجد قریب کا نام لے کر بھی مخاطب کیا تاکہ بعض کے ساتھ مخصوص ہو جائے)چناچہ آپ نے فرمایا اے کعب بن لوی کی اولاد !اپنی جانوں کی دوزخ کی آگ سے بچائو ۔اے عبد شمس کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو ۔اے عبد مناف کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو ۔اے ہاشم کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو ۔اے عبدالمطلب کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو۔
اے فاطمہ اپنی جان کو آگ سے بچا۔اس لیے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں (یعنی میں کسی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا )البتہ مجھ پر تمہارا قرابت کا حق ہے جس کو میں قرابت کی تری سے تر کرتا ہوں ۔
اور بخاری و مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا اے قریش کی جماعت ! اپنی جانوں کو خریدلو (یعنی ایمان لاکر اور طاعت و فرماں برداری کر کے دوزخ کی آگ سے اپنے آپ کو بچالو )میں تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب میں سے کچھ بھی دور نہیں کر سکتا اور اے عبد مناف کی اولاد! میں تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا ۔اے عباس ابن عبدالمطلب ! میں تم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دفع نہیں بچا سکتا ۔
اور اے رسول اللہ کی پھوپھی صفیہ! میں تم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچاسکتا۔اور اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ! میرے مال میں سے جو کچھ تو چاہے مانگ لے لیکن میں تجھ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا ۔
تشریح:اس حدیث سے امت کو یہ سبق ملتا ہے کہ جب سید الانبیاءصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو محنت کی طرف متوجہ کیا گیا تو آج کس احمق و نادان کا منہ کہ پیروں یا اولیاء کی سفارش پر یا خود سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفاعت کے بھروسہ پر یا حق تعالیٰ شانہ کی رحمت کے بھروسے پر گناہوں اور سرکشی پرجری اور گستاخی ہو اور نیک اعمال سے بے پروا ہو ۔خود سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جو حق تعالیٰ شانہ کے لاڈلے اورمحبوب رسول ہیں اور ایسے محبوب ہیں جو آپ کے نقش قدم کی اتباع کرے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو جاوے کس قدر عبادت فرماتے تھے کہ طولِ قیام سے پائوں مبارک میں ورم آجاتا تھا ،تعجب ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی شان رحمت پر بھروسہ کا پر فریب دعویٰ کرکے نیک اعمال سے کاہل اورگناہوں میں چست و چالاک بنے ہیں یہی لوگ حق تعالیٰ کی دوسری صفت رزّاقیت پر بھروسہ کرکے گھر میں نہیں بیٹھتے بلکہ روزی کے لیے مارے مارے سرگرداں و پر یشاں در بدر چکّر کاٹتے ہیں اور کس کس خاک آستاں کو بوسہ دیتے ہیں اور آخرت کے معاملہ میں اپنی غفلت اور کاہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے توکّل کا سہارالیتے ہیں یہ کیسا توکّل ہے کہ ایک صفت پر توکل ہو اور دوسری صفت پر توکل نہ ہو تو یہ توکل تو اپنے مطلب کاتوکل ہوا؎
مصطفٰے فرمودہ با واز بلند
بر توکّل زانوئے اشتربہ بند
حضرت مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ کو رسی سے باندھ دو پھر توکل اللہ تعالیٰ پر کرو رسی پر توکل نہ کرو۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تدبیر کو چھوڑ توکل نہیں بلکہ تدبیر کرکے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا اور تدبیر پر بھروسہ نہ کرنے کا نام اصل توکل اور صحیح توکل ہے۔پس آخرت کے لیے بھی اعمال صالحہ اختیار کرے اور گناہوں سے بچنے کی تکالیف کو برداشت کرے اور پھر مغفرت کے لیے اپنے ان اعمال پر بھروسہ نہ کرے بلکہ حق تعالیٰ کی رحمت پر بھروسہ کرے۔
حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اُوْلئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللہِ ط (سورۃ البقرۃ پارہ ۲،آیت ۲۱۸)یہ وہ لوگ ہیں جواللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہیں اس کلام ربّانی سے بھی معلوم ہوتا ہےایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید پیدا ہوتی ہے اور نافرمانی پر اصرار اور توبہ نہ کرنے سے اس امیداور نورِ ایمان میں کمزوری پیداہوتی ہے۔
کتاب: رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت .
حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ